بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکات کے متعلق چند مسائل


سوال

1-زکات کی ادائیگی کے لیے کیا مدت ہے؟اور کتنی رقم پر زکات واجب ہوتی ہے؟بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ جب رقم ومال پر ایک سال گزرجاۓتو اس پر زکات واجب ہوجاتی ہے،زکات کے ان مسائل کے بارے میں راہ نمائی کریں؟

2-میرے پاس آٹھ تولہ سونا ہے،پانچ تولہ پچھلے سال کا ہےاورتین تولہ سونامیں نے ابھی دو مہینے پہلے خریدا ہے،میں رمضان سے پہلےزکات نکالنا چاہتا ہوں ،کیا میں صرف پانچ تولے سونے کی  زکات نکالوں گا یا تین تولہ سونے کی بھی زکات ادا کروں گا؟

وضاحت:گزشتہ سال پانچ تولہ سونااور دولاکھ روپے  مجموعہ کی ڈھائی فیصد زکات رمضان میں ادا کی تھی،اب بھی آٹھ تولہ سونا کے ساتھ ضرورتِ اصلیہ سے زائد نقدی موجود ہے۔

3-میں نے عمرے پر جانے کی نیت سے کچھ رقم جمع کرنا شروع کردی ہے،8ماہ میں ایک لاکھ روپے جمع ہوگئے ہیں،2لاکھ جمع کرنا باقی ہے،کیا ان پیسوں پر زکات نکالنا واجب ہوگی؟

4-میرے بھائی کے پاس سونا نہیں ہے،معمولی سا کاروبار ہے،جمع شدہ رقم گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، کتنی رقم ہو اور کتنے عرصے سے ہو تو زکات ادا کرنا واجب ہوگی؟

جواب

1-جوشخص مسلمان، عاقل و بالغ ،آزاد ہو، نصاب کے برابر مال  (نقدی، سونا، چاندی یا مالِ تجارت) رکھتا ہو، ما ل ضروریاتِ  اصلیہ سے زائد ہو  اور    چاند کے اعتبار سے سال مکمل ہونے پر بھی اس کے پاس نصاب یا اس سے زیادہ مال موجود ہو تو اس پر  زکات ادا کرنا فرض ہے۔

صاحبِ نصاب ہونے پر اپنے اموال میں سے  چالیسواں حصہ  (ڈھائی فیصد) زکات  میں نکالنا واجب ہے۔

  • نصاب سے مراد یہ ہے کہ  اگر اس کی ملکیت میں صرف سونا ہو (اس کے علاوہ ضرورت سے زائد کچھ بھی نہ ہو، نہ چاندی، نہ نقدی نہ مالِ تجارت) تو ساڑھے سات تولہ سونا ہو،  یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اس  (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی مالیت کے برابرنقدی ہو یا سامانِ تجارت ہو یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو۔
  • ضرورتِ اصلیہ سے مراد رہائش کا مکان، استعمال کی سواری، لباس، خوراک اور گھریلو استعمال کی دیگر چیزیں، (خواہ کتنی قیمتی کیوں نہ ہوں) مثلاً:  لیپ ٹاپ، موبائل وغیرہ۔ 

2-صورتِ مسئولہ میں  جب آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں، اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاریخ مقرر ہے تو اس مقررہ تاریخ پر آپ اپنے مکمل اثاثہ(آٹھ تولہ سونا، نقدی وغیرہ) پر زکوٰۃ ادا کریں گے اگر چہ تین تولہ سونا آپ نے دوماہ قبل خریدا ہے۔

3-عمرے کی نیت سے آپ نے جو بھی رقم جمع کی ہے،اس پر بھی اپنے دیگر اموال کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔

4-اگر بھائی کے پاس سرمایہ کسی وقت نصاب کے بقدر پہنچ گیا تھا، تو اسی وقت سے اس کا سال شروع ہوگیا، اب آئندہ سال اسی تاریخ کو اگر وہ صاحبِ نصاب ہے تو اس پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے، اگر چہ درمیان سال میں مال گھٹتا بڑھتا رہے، اس کا اعتبار نہیں ہے۔

سنن ترمذی  میں ہے :

"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهماً درهم، وليس فى تسعين ومائة شىء فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم“."

ترجمہ:” حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں نے گھوڑوں اور لونڈی و غلام کی زکاۃ معاف کر دی (یعنی یہ تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں )پس چاندی کی زکاۃ دو،  ہر چالیس درہم پر ایک درہم (لیکن خیال رہے )ایک سو نوے درہم میں زکاۃ نہیں ہے، جب دو سو درہم پورے ہوں گے تب زکاۃ واجب ہوگی اور زکاۃ میں پانچ درہم دینے ہوں گے ۔“

(باب زکاۃ الذھب والفضة، 8/2، ط:دار الغرب الإسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية)۔۔۔(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)۔۔۔(فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ۔۔۔(و) فارغ (عن حاجته الأصلية)۔۔۔(نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه."

(كتاب الزكاة، 258تا263 /3، ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، 302/2 ، ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(وجاز دفع القیمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح."

(كتاب الزكاة، باب زکاۃ الغنم،286/2 ،  ط: سعید)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"‌زكاة ‌العمارات والمصانع ونحوها۔۔۔لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."

(مقدمات، القسم الاول، الباب الرابع، الفصل الاول، المبحث السادس، 1947/3، ط:دار الفكر)

وفيه ايضا:

"يقوِّم ‌التاجر ‌العروض أو البضائع التجارية في آخر كل عام بحسب سعرها في وقت إخراج الزكاة، لا بحسب سعر شرائها، ويخرج الزكاة المطلوبة، وتضم السلع التجارية بعضها إلى بعض عند التقويم ولو اختلفت أجناسها، كثياب وجلود ومواد تموينية، وتجب الزكاة بلا خلاف في قيمة العروض، لا في عينها؛ لأن النصاب معتبر بالقيمة، فكانت الزكاة منها، وواجب التجارة هو ربع عشر القيمة كالنقد باتفاق العلماء."

(مقدمات، القسم الاول، الباب الرابع، الفصل الاول، المبحث الخامس، 1971/3، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608101198

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں