کیا فلاحی ادارے زکوۃسے اشیاء خوردونوش خرید سکتے ہیں؟
جس طرح مستحق زکات شخص کو زکات کی رقم دی جا سکتی ہے اسی طرح زکات کی رقم سے اشیاء خور د ونوش خرید کر اس کو مالک بنایا جا سکتا ہے، ایسا کرنے سے زکات ادا کرنے والے کی زکات ادا ہو جائے گی۔ البتہ جتنی رقم کا راشن خریدا گیا اور مستحق کو مالک بناکر دیا گیا، اتنی رقم کی زکات ادا ہوگی، راشن خرید کر لانے اور منتقل کرنے کا کرایہ، راشن پیکج بنانے کے لیے مزدوروں کی اجرت وغیرہ زکات کی رقم سے ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو جتنی رقم کرایہ وغیرہ میں صرف ہوگی اتنی رقم کی زکات ادا نہیں ہوگی۔
لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر فلاحی ادارے میں زکات جمع کرنے والوں کی جانب سے صراحۃً یا دلالۃً اجازت ہو کہ زکات کی رقم سے راشن وغیرہ خرید کر دے دیں ، تو پھر فلاحی ادارے کےلیے زکات کی رقم سے راشن خرید کر مستحقِ زکات کو مالک بناکر دینے سے زکات ادا ہوجاۓ گی۔
مستحقِ زکات سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو اور وہ سید/ عباسی نہ ہو۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"خرج الإباحة فلو أطعم یتیماً ناویاً الزکاة لاتجزیه إلا إذا دفع إلیه المطعوم کما لو کساه."
(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 257، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"ثم إن المعتبر عند محمد الأنفع للفقير من القدر والقيمة."
(كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، ج: 2، ص: 285، ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"(قوله: ودفع القيمة) أطلقها فشمل قيمة الحنطة وغيرها .... اقتصر على الدراهم تبعا للزيلعي لبيان أنها الأفضل عند إرادة دفع القيمة؛ لأن العلة في أفضلية القيمة كونها أعون على دفع حاجة الفقير لاحتمال أنه يحتاج غير الحنطة مثلا من ثياب ونحوها."
(كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، ج: 2، ص: 366، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409101276
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن