بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ کی رقم مالک بنائے بغیر مدرسہ کے بچوں اور استاد کے تنخواہ میں استعمال کرنا


سوال

ہمارا ایک مدرسہ ہے، جس میں شعبہ تحفیظ القرآن ہے، جہاں بچوں کو حفظ کروایا جاتا ہے، اس مدرسہ میں دس گیارہ بچے زیرِ تعلیم ہیں، یہ بچے صبح کو مدرسہ آتے ہیں اور شام کو گھر چلے جاتے ہیں، اور بعض بچے جو دور سے آتے ہیں وہ عصر کو ہی گھر چلے جاتے ہیں، اب بچوں کا دوپہر کا کھانا جو کہ مدرسہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس کے علاوہ زیادہ تر بچے جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں ان کو وظیفہ وغیرہ بھی دیا جاتا ہے، اسی طرح جو استاد (قاری و مجوّد)  رکھا ہے وہ مستقل بنیاد پر ہے (یعنی وہ دور دراز علاقے کا ہے اور وہیں رہتا ہے) اور وہ بھی زکوٰۃ کا مستحق ہے، ان کا کھانا پینا اور تنخواہ وغیرہ مدرسہ کے ذمّہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مدرسہ کو جو رقم ملتی ہے اس میں کچھ رقم زکوٰۃ کی بھی ہوتی ہے،باقی خیرات و صدقات وغیرہ کی، مدرسے کے پاس نہ بہت پیسے ہیں اور نہ آمدنی کا کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہی کوئی کاروباری نظام، نیز یہ مدرسہ جس علاقے میں واقع ہے وہاں مختلف فرقوں کے لوگ رہتے ہیں، یعنی ماحول موافقت والا نہیں ہے، ان تمام صورتِ حال میں مدرسے میں زکوٰۃ کی جو رقم آتی ہے تو کیا اس رقم کو ان بچوں کی ضروریات مثلاً کھانے پینے، وظیفہ وغیرہ میں استعمال کیا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ یہ بچے زکوٰۃ کے مستحق ہیں، اور اسی طرح استاد کے کھانے پینے، تنخواہ وغیرہ میں یہ رقم استعمال ہوسکتی ہے یا نہیں؟

ہمارے مدرسے کا نظام اس طرح ہے کہ جب بچے داخلہ لیتے ہیں تو اس وقت ان سے زبانی بھی (وکالت لی جاتی ہے) اور جو فارم ان سے پُر کرایا جاتا ہے اس میں ایک شرط یہ بھی ہوتی ہے کہ ”مدرسے کو جو بھی رقم ہمارے نام پر ملتی ہے ہم (اس بارے میں) مدرسے کو مکمل اختیار دیتے ہیں، ملکیت دیتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہے یہ رقم ہمارےمقاصد و ضروریات میں استعمال کریں۔“

وضاحت: اس مدرسہ میں 20 بچے زیرِ تعلیم ہیں، جن میں سے گیارہ بچے شعبۂ حفظ میں پڑھتے ہیں، جن کی عمریں دس سال اور اس سے زائد ہیں، اور زکوٰۃ کی  مد میں سے کھانا اور وظیفہ صرف انہیں  طلبہ کو دیا جاتا ہے،  اور یہ بچے مستحق بھی ہیں، ان کے علاوہ باقی بچوں کو کھانا اور وظیفہ نہیں دیا جاتا۔ نیز اس مدرسہ میں عطیات، زکوٰۃ وغیرہ کےلیے الگ الگ انتظام نہیں ہے، بلکہ تمام رقوم کو اکھٹے ہی رکھا جاتا ہے، اور اسی میں سے مختلف ضروریات میں خرچ کیا جاتا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  یہ طلبہ  واقعی مستحقِ زکوٰۃ ہیں تو زکوٰۃ کی رقم سے ان کے کھانے پینے اور وظائف کے اخراجات میں خرچ کرنا درست ہے، اور زکوۃ کی رقم سے جو کھانا پکایا جائےگا وہ طلبہ کے برتن میں دیا جائے ان کو دستر خوان پر بیٹھا کر نہ کھلائے ورنہ زکوۃ ادا نہیں وہ گی، البتہ ان طلبہ میں جو نابالغ ہیں تو یہ دیکھا جائے کہ ان کے والدین مالدار یعنی صاحبِ نصاب ہیں یا نہیں؟ اگر ان کے والدین مالدار ہوں اور وہ ان بچوں کا خرچہ بھی اٹھاتے ہوں تو ایسی صورت میں انہیں زکوٰۃ دینا یا زکوٰۃ کی رقم ان پر صرف کرنا شرعًا درست نہیں ہے، اور اگر ان کے والدین مالدار نہ ہوں تو زکوٰۃ کی رقم بطورِ وظیفہ انہیں دینا، اور اسی طرح ان کی ضروریات و اخراجات میں بھی یہ رقم استعمال کرنا درست ہوگا۔

نیز زکوٰۃ کی رقم استاد کے تنخواہ میں استعمال کرنا درست نہیں ہے، اگرچہ وہ خود مستحقِ زکوٰۃ ہو، کیوں کہ زکوٰۃ بغیر کسی معاوضہ کے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے دی جاتی ہے، جب کہ استاد کو تنخواہ ان کی خدمات کے  معاوضہ کے طور پر دی جاتی ہے، لہٰذا استاد کی تنخواہ غیرِ زکوٰۃ یعنی عطیات وخیرات سے دیناضروری ہے۔

رہی بات ان بچوں سے داخلہ کے وقت بطورِ وکالت زبانی و تحریری داخلہ فارم پُر کرواکر اجازت لینے کی تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ زکوٰۃ کی یہ رقم باقاعدہ تملیک کےبغیر محض مذکورہ وکالت کی بنیاد پر استاد کے تنخواہ یا مدرسہ کی دیگر ضروریات (مثلاً گیس بجلی کا بل وغیرہ) پر صرف کرنا درست نہیں ، لہٰذا ضروری ہے کہ مختلف مدّات میں وصول ہونے والی رقوم کو الگ الگ رکھا جائے اور ہر ایک کو اس کے صحیح مصرف میں خرچ کیا جائے۔

تاہم اگر مدرسہ پس ماندہ اور غریب علاقے میں ہو اور  غیرِ زکوٰۃ رقوم سے مدرسہ کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں تو ایسی صورت میں بقدرِ ضرورت بوجۂ مجبوری تملیک کی حقیقت اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی، جس کی صورت یہ ہو گی کہ کسی فقیر مستحقِ زکوٰۃ کو (خواہ طالب علم ہو یا کوئی اور) زکوٰۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، اور زکوۃ کی رقم دیتے وقت اسے مدرسہ کی ضروریات بتادی جائیں کہ فلاں فلاں مصرف میں پیسوں کی ضرورت ہے، اور دینے والا اور لینے والا یہ سمجھتاہو کہ فقیر مالک ومختار ہے، چاہے تو وہ رقم  مدرسہ کوبطورِ عطیہ کے دےدےاور چاہے تو وہ خود استعمال کرے، پھر وہ فقیر کسی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے وہ رقم مدرسہ کو دیتا ہے تو ایسی صورت میں مدرسے کی تمام ضروریات میں اس رقم کو استعمال کیاجاسکتا ہے ۔

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

'سئل عبد الکریم عمن دفع زکاة ماله إلی صبي؟ قال: إن کان مراهقاً یعقل الأخذ یجوز، وإلا فلا. وفي الخانیة: وکذا لو کان الصبي یعقل القبض بأن کان لایرمي به ولایخدع عنه".

(کتاب الزکوٰۃ، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع فيه الزكوٰۃ، ج:3، ص:211، ط:مكتبه زكريا ديوبند الهند)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير......

وفي الرد: قوله: ولا إلى طفله) أي الغني فيصرف إلى البالغ ولو ذكرا صحيحا قهستاني، فأفاد أن المراد بالطفل غير البالغ ذكرا كان أو أنثى في عيال أبيه أولا على الأصح لما عنده أنه يعد غنيا بغناه".

( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:349، ط: ايج ايم سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى ".

(كتاب الزكاة، الباب الأول، ج:1، ص:170، ط: رشيدية كوئته)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌ولو ‌دفعها ‌المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا.

وفي الرد: (قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض".

( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، فروع في مصرف الزكاة، ج:2، ص:356، ط: ايج ايم سعيد)

وفيه أيضاً:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).

وفي الرد: (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي".

( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:344، ط: ايج ايم سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(وأما شرطها) فأنواع: منها ما يرجع إلى الموكل وهو أن يكون ممن يملك فعل ما وكل به بنفسه، فلا يصح التوكيل من المجنون والصبي الذي لا يعقل أصلا، وكذا من الصبي العاقل بما لا يملكه بنفسه كالطلاق والعتاق والهبة والصدقة ونحوها من التصرفات الضارة المحضة، ويصح بالتصرفات النافعة كقبول الهبة والصدقة من غير إذن الولي، وأما التصرفات الدائرة بين الضرر والنفع كالبيع والإجارة، فإن كان مأذونا في التجارة يصح منه التوكيل، وإن كان محجورا ينعقد موقوفا على إجازة وليه أو على إذن وليه بالتجارة كما إذا فعله بنفسه هكذا في البدائع".

(كتاب الوكالة، الباب الأول، ج:3، ص:561، ط: رشیدیۃ کوئتہ)

وفيه أيضاً:

"(والحيلة أن يتصدق بمقدار زكاته) على فقير، ثم يأمره بعد ذلك بالصرف إلى هذه الوجوه فيكون للمتصدق ‌ثواب ‌الصدقة ولذلك الفقير ثواب بناء المسجد والقنطرة".

(کتاب الحیل، الفصل الثالث فی مسائل الزکوۃ، ج:6، ص: 392، ط: رشیدیۃ کوئتہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601101191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں