1: زید نے اپنی رقم کسی ادارے کو سونپ دی کہ وه ادارہ جو حلال شرعی کاروبار کرے اس میں سے زید کو ہر ماہ شرعی اصولوں کے مطابق منافع ادا کرتا رہے ۔اب زید پریشان ہے کہ جب زید زکات کی ادائیگی کرے گا تب زید اپنی کل سرمایہ کاری کو بھی شامل کرے گا یا کل سرمایہ کاری سے جو منافع كماتا رہا صرف اسی منافع کو شامل کر کے زکات ادا کرے گا؟
2: بکر نے ایک گھر تعمیر کیا ،اس گھر کو بکر نے ماہانہ کرایہ پر دے دیا ۔خود بکر اب اپنے گھر میں نہیں بلکہ اپنے والد محترم کے گھر میں رہتا ہے ،اب بکر پریشان ہے کہ زکات دیتے وقت بکر صرف کرایہ کی ایک سال کی کل رقوم کو جمع کرے گا یا پھر کرایہ کی ایک سال کی آمدن کے ساتھ ساتھ زکات دیتے وقت اس گھر کی مارکیٹ میں اندازا کل قیمت لگوا کر اس مکمل قیمت کو بھی کرایہ کی سالانہ رقم میں جمع کرنا ہوگا اور زکات اس مکمل رقم پر بنے گی؟
3: زکات اور خمس میں کیا فرق ہے ؟کیا دور رسالت و خلافت میں زکات کے ساتھ ساتھ خمس بھی ہر صاحب نصاب پر فرض ہوا کرتا تھا ؟ کیا خمس آج کے دور میں بھی ہر صاحب نصاب پر دینا فرض ہے ؟خمس کا نصاب بھی کیا زکات ہی والا نصاب ہے ؟
4: کیا موجودہ کرنسی اور موجودہ بینک نوٹ نیز بینک اکاؤنٹ وغیرہ میں ڈپازٹ رقوم پر بھی زکات اور خمس دونوں فرض ہیں؟
1: صورت مسئولہ میں زید زکات کی ادائیگی کے وقت منافع کے ساتھ ساتھ اصل سرمایہ کو بھی زکات کے حساب میں شامل کرکے زکات اداکرے گا۔
2: بکر نے جو گھر کرایہ پر دیا ہے زکات ادا کرتے وقت پورے سال میں جو کرایہ حاصل ہوا ہے اور وہ محفوظ اور ضرورت سے زائد ہو اورتنہا یادیگر اموال زکات کے ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہو تو اس پر زکات واجب ہوگی گھر کی مالیت پر زکات نہیں ہے ۔
3: زکات کالغوی معنی ہے (النماء)بڑہوتری۔لہذا زکات صرف اس مال پر فرض ہے جو عادۃً بڑھتا ہے، جیسے مالِ تجارت یا مویشی یا سونا چاندی اور نقدی، سونا، چاندی اور نقدی کو اسلام نے تجارت کا ذریعہ قرار دیا ہے ؛ اس لیے سونا چاندی کو کوئی زیور بنا کر رکھے یا ٹکڑے بنا کر رکھے، ہر حال میں وہ تجارت کا مال ہے ؛ اس لیے اگر وہ نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اس پر زکات فرض ہے۔
او ر (خمس) پانچویں حصہ کو کہتے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح حقوقِ مالیہ میں سے "خمس"بھی ایک حق ہے، جو مالِ غنیمت (جو مال مجاہدین کو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے دشمنوں سے حاصل ہو) میں سے اولاً نکالا جائے گا، اور پھر بقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم ہوں گے۔قرآن کریم کی سورہ انفال میں (پارہ نمبر دس کے آغاز میں)اللہ تعالیٰ نے خمس اور اس کے مصارف کا بیان فرمایا ہے۔نیر دور رسالت و خلافت میں بھی ہر صاحب نصاب پر زکات کے ساتھ ساتھ خمس فرض نہیں ہوتاتھا، اور آج کے دور میں بھی ہر صاحب نصاب پر خمس دینا فرض نہیں ہے ، اسی طرح خمس کانصاب شریعت میں مقرر نہیں ہے بلکہ جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہوگا اس میں سے ایک خمس ادا کرنا ہو گا۔
4: موجو دہ کرنسی اور موجو دہ بینک نوٹ نیز بینک اکاؤنٹ وغیرہ میں ڈپازٹ کے طور پر رکھی ہوئی رقوم پر زکات فرض ہے نہ کہ خمس ۔البتہ اگر بینک میں رکھی رقم سودی اکاؤنٹ میں موجود ہوتو زکات صرف اصل رقم پر ہوگی،نہ کہ اس پر حاصل ہونے والے سود پر ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا".
(کتاب الزکواۃ ،الباب الاول 1 /175 ط: دار الفکر بیروت )
وفیہ ایضا:
"ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة".
(کتاب الزکاۃ ،فصل فی العروض 1 /180 ط: سعید )
فتاوی شامی میں ہے :
"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك جزء مالعينه الشارع)....(نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه".
(کتاب الزکاۃ 2 /256 /263 ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"في المغرب: الغنيمة ما نيل من الكفار عنوة والحرب قائمة، فتخمس وباقيها للغانمين".
"قال في الهندية: الغنيمة اسم لما يؤخذ من أموال الكفرة بقوة الغزاة وقهر الكفرة".
(کتاب الجھاد ، باب المغنم وقسمتہ 4 /137 ط: سعید)
الموسوعۃ الفقھیہ میں ہے:
"الخمس - بضم الخاء وسكون الميم أو ضمها - الجزء من خمسة أجزاء،والخمس: خمس الغنيمة أو الفيء، والتخميس: إخراج الخمس من الغنيمة".
(حرف الخاء 20 /10 ط: دارالسلاسل الكويت)
فتاوی شامی میں ہے :
"شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض".
(کتاب الزکاۃ 2 /267 ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي)...(تام) (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)".
(كتاب الزكاۃ،2 /259 /262 ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408101067
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن