بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ دیتے ہوئے ہبہ کی شرط لگانا


سوال

 علی نے تقی کو زکوۃ کے دس ہزار روپے اس شرط پر دیے کہ تقی  مذکورہ رقم میں سے ایک ہزار روپے رکھ کر بقیہ نو ہزار روپے علی کو بطورِ ہدیہ دے دے،  کیاایسا کرنے  سےزکوۃ ادا ہو جائے گی اور علی کے لیے اس رقم کا استعمال کرنا جائز ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لیے مستحقِ زکوۃ کوکسی عوض و شرط کے بغیر زکوۃ کا مالک بنانا  ضروری ہوتا ہے،پس اگر کسی مستحقِ زکوۃ کو واپسی کی شرط پر زکوۃ دی گئی تو ایسی شرط فاسد ہوتی ہے،جب کہ مستحق کو  زکوٰة  کی رقم مالکانہ طور پر دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے، تاہم شرط کی پاسداری  کرنا مستحق پر لازم نہیں ہوتا، اور نہ ہی زکوٰة   دینے والے کو مطالبہ کا حق ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شرط کی بنیاد  پر اگر مسمی علی نے مسمی تقی  کو زکوٰة کی مد میں دس ہزار روپے دیئے ہوں، تو قبضہ کرنے کے بعد نو ہزار روپے واپس کرنا مسمی  تقی پر لازم  نہیں ہوں گے، البتہ اگر تقی اپنی خوشی سے نوہزار روپے علی کو تحفہ کے طور پر دےدےتو علی کے لیے مذکورہ رقم اپنے استعمال میں لانا جائز ہوگا، تاہم ایسا کرنا  شریعت کے مقاصد کے خلاف ہے، لہذا ایسا کرنے سے اجتناب کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المالمن فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين".

(کتاب الزکوۃ، الباب الاول، ج:1، ص:170، ط:دار الفکر)

امداد الاحکام میں ہے:

”سوال: زید نے عمرو سے کہا کہ ہمیں دس روپے قرض دو ہم چند روز میں ادا کر دیں گے،عمرو نے خیال کیا بے چارہ زید غریب ہے، اور مستحق زکوۃ ہے مگر غیرت مانع ہو رہی ہے، اس نے دس روپے زکوۃ کے دے دیے، زکوة کی نیت سے اور بری الذمہ ہو گیا، مگر سوال یہ ہے کہ زید بعد میں اگر دس روپے لا کر عمر د کو دے کہ لو بھائی آپ کے دس روپے  تو عمرو کو لینے جائز ہیں یا نہیں ؟ ( جب کہ یہ بھی خطرہ ہو کہ اگر نہ لوں گا تو زید بگڑے گا، اور کہے گا کہ کیا تم نے ہمیں ایسا گمان کیا تھا اور کوئی سبیل بھی زید کے سمجھانے کی نہ ہو) اور اگر جائز ہے تو پھر اس دس روپے کو اور کسی غریب مستحقِ زکوۃ کو دینے ضروری ہوں گے یا کہ عمرد کو اپنے کام میں لانے جائز ہیں ؟

الجواب :اگر زید نے عمر د کو روپے دیتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ روپیہ قرض مت سمجھنا، بلکہ تمھاری ملک ہیں، تم کو ویسے ہی ہبۃً بلا قرض دیتا ہوں(گو یہ نہ کہا ہو کہ زکوۃ دیتا ہوں) تب تو  زید پر سے زکوۃ ساقط ہو گئی، اور اس صورت میں عمرو  اگر اس کو دس روپے دے گا تو یہ ہبہ مستانفہ ہوگا، اس کا لینا جائز ہے، مگر خلاف اولیٰ ہے ،اور لے لینے کے بعد صدقہ کردینا بہتر ہے احتر ازا عن صورة العود في الصدقة ، اور اگر زید نے عمرو سے اس کے سوالِ قرض کے بعد یہ نہیں کہا کہ یہ روپیہ قرض نہیں ،بلکہ ہبہ ہیں تو زکوۃ بوجہ نیتِ زکوة کے اس صورت میں بھی ادا ہو گئی، لیکن اس رقم کو عمرو سے واپس لینا جائز نہیں، کیوں کہ اس صورت میں یہ بالکل عود فی الصدقہ ہے، عمرو  اس رقم کو اپنے اوپر قرض سمجھ کر واپس کر رہا ہے، اور زید کی نیت قرض دینے کی نہ تھی، تو اب زید کو اس کی واپسی کا کچھ حق نہیں بخلاف صورت اولی کے کہ وہاں عمرو کو بوقتِ عطاءیہ معلوم ہو گیا تھا کہ یہ رقم قرض نہیں ، پس صورت ثانیہ میں اگر زید نے اس رقم کو واپس لے لیا تو لازم ہے کہ اس کو پھر کسی حیلہ سے عمرو ہی کو واپس کر دے ، ورنہ اداءِ زکوۃ میں شبہ رہےگا۔“ 

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:9، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں