بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کا مصرف


سوال

 زکوٰۃ کس کس کو دی جاسکتی ہے؟

جواب

واضح  رہے  کہ ہر وہ شخص  جس کے  پاس بنیادی ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو ،  اور وہ  سید/ ہاشمی نہ ہو، وہ زکات کا مستحق ہے۔

  اسی طرح اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، اس کے علاوہ ضرورت سے زائد نقدی، چاندی، مالِ تجارت یا استعمال سے زائد کوئی سامان یا چیز نہ ہو، تو جب تک ساڑھے سات تولہ سونا اس کی ملکیت میں نہ ہو وہ زکات کا مستحق ہوگا۔ 

رشتہ داروں میں والدین اور اولاد، اسی طرح  میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔اس کے علاوہ رشتہ داروں میں اگر کوئی فرد موجود ہو  تو  اسے زکات دینے میں دوہرا اجر ہوگا، زکات دینے کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی۔ باقی   صرف  یتیم  یا بیوہ ہونا  زکات کا مصرف نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن النصاب قسمان: موجب للزكاة وهو النامي الخالي عن الدين. وغير موجب لها وهو غيره، فإن كان مستغرقا بالحاجة لمالكه أباح أخذهما وإلا حرمه وأوجب غيرهما من صدقة الفطر والأضحية ونفقة القريب المحرم كما في البحر وغيره."

 (کتاب الزکوۃ باب مصرف الزکوۃ ج نمبر  ۲ ص نمبر ۳۳۹،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"«(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن»

قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة."

(کتاب الزکوۃ باب مصرف الزکوۃ ج نمبر ۲ ص نمبر۳۴۷،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں