بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکوٰۃ کا نصاب اور حساب کا طریقہ


سوال

 میرے پاس اگست  2019 میں کچھ سیونگ تھی جو کہ نصاب زکوٰۃ  یعنی ساڑھے سات تولے سونے سے کم تھی،  پھر نومبر 2020 میں کچھ سیونگ اور آ گئي،  اب دونوں رقوم کو ملا کر نومبر 2020 میں میرے پاس لگ بھگ 11.50 تولے سونا کے برابر رقم بن گئ تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس ساری رقم پر ایک سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ  ادا کرنا ہے یعنی نومبر 2021 کو یا  مجھے نومبر 2020 کو ہی موجودہ رقم پر زکوٰۃ کیلکولیٹ کر لینا چاہیے تھا؟

جواب

واضح رہے کہ زکات کے نصاب کی تفصیل یہ ہے:

اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو  ساڑھے باون تولہ چاندی،  یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی  یا سامانِ تجارت ہو ،  یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر مجموعی مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے  شخص پر  سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہے۔

یہ ملحوظ رہے کہ زکات کا مدارصرف ساڑھے سات تولہ سونے پراس وقت ہے کہ جب کسی اور جنس میں سے کچھ پاس نہ ہو، لیکن اگر سونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور مالیت بھی ہےتوپھرزکات کی فرضیت کا مدار ساڑھے باون تولہ چاندی پرہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں  اگر  اگست 2019  سے پہلے ہی نصاب کے بقدر (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ) رقم کے مالک تھے یا اگست 2019 کو   آپ کے پاس جو نقد رقم تھی وہ ساڑھے  باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ تھی تو آپ صاحبِ نصاب  بن گئے تھے اور آپ کا زکات کا سال شروع ہوگیا تھا، لہذا  جس دن آپ نصاب کے بقدر رقم کے مالک ہوئے تھے  اس دن کی قمری (چاند کے اعتبار سے ) تاریخ نوٹ کرلیں اور اگر تاریخ یاد نہیں ہے تو اندازے سے ایک قمری تاریخ کا تعین کرلیں  اور اس کے ایک  قمری سال  مکمل ہونے پر  آپ کے پاس جس قدر سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت موجود ہے ، اسی طرح قرض پر دی ہوئی رقم (جس کی واپسی کی امید ہو)، امانت میں دی ہوئی رقم  ان سب کو جمع کرلیں اور اس میں سے  آپ کے ذمہ اس تاریخ تک جو واجب الادا اخراجات (مثلاً قرض، بجلی، راشن وغیرہ کے بل وغیرہ) ہیں  ان کو  مائنس کرلیں ، جو رقم بچ جائے اگر وہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی  قیمت سے زیادہ ہے تو اس کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فی صد) زکات میں نکالنا  ضروری ہوگا۔ اسی طرح اگلے سال اسی قمری تاریخ کو موجودہ مالیت کا حساب کرکے زکات ادا کردیجیے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں