زید نے ایک رہائشی اسکیم میں ایک پلاٹ بُک کروایا ہے ،جس کی قیمت نوے لاکھ ہےاور اس کی قیمت میں سے تیس لاکھ ادا کرچکا ہےاور بقایا ساٹھ لاکھ تین سالوں میں ہر ماہ قسطوں میں اداکرے گا ،پلاٹ نمبراس نے خود ہی نقشہ میں دیکھ کر پسند کیا اور وہ پلاٹ اس کی مقررہ جگہ پر ہی ہے،آپ حضرات سے سوال یہ ہے کہ زید اپنی زکوۃ کے حساب میں کیا کرے۔
واضح رہے کہ زید نے یہ پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے تاکہ وہ اپنی ملازمت سے ریٹائر فارغ ہوکراس پر مکان بنواکر کرایہ پر دے دے تاکہ ماہانہ آمدنی ہوسکے اور دوسرا اس وجہ سے کہ اس کے بچوں (ورثاء) میں تمام املاک آسانی سے تقسیم ہوسکے ۔
صورتِ مسئولہ میں زید نے یہ پلاٹ اس نیت سے خریدا ہے کہ اس پر مکان بناکر کرایہ پر دے اور بعد میں ورثاء میں تقسیم ہوسکے تو زید پر اس پلاٹ کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی ،نیز جب یہ پلاٹ نمبر نقشہ کے اعتبار سے متعین ہوچکا ہے تو جمع کردہ رقم پر بھی پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی البتہ اپنے دیگر امول کی زکوٰ ۃ نکالتے ہوئے زید صرف اتنی رقم (قسط ) منہا کرے گا جو زکوٰۃ کی تاریخ سے قبل واجب الاداء ہوں مکمل ساٹھ لاکھ منہا نہیں ہوں گے۔
مجموعة الفتاویٰ بهامش خلاصة الفتاویمیں ہے:
" لو اشتریٰ الرجل داراً او عبداً للتجارۃ ثم آجرہ یخرج من ان یکون للتجارۃ ولو اشتریٰ قدوراً من الصفر یمسکہا ویواجرہا لا یجب فیہا الزکاۃ کما لا یجب فی بیوت الغلة کذا فی فتاویٰ قاضی خان."
(کتاب الزکاۃ، ج:1، ص:235،ط: رشیدية)
العناية شرح الهداية میں ہے:
"(ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) وقال الشافعي: تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام. ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة (ومن كان عليه دين يحيط بماله) وله مطالب من جهة العباد سواء كان لله كالزكاة أو للعباد كالقرض، وثمن المبيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة ومهر المرأة سواء كان من النقود أو من غيرها وسواء كان حالا أو مؤجلا (فلا زكاة عليه. وقال الشافعي: تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام) فإن المديون مالك لماله لأن دين الحر الصحيح يجب في ذمته، ولا تعلق له بماله ولهذا يملك التصرف فيه كيف شاء (ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية) أي معد لما يدفع الهلاك حقيقة أو تقديرا لأن صاحبه يحتاج إليه لأجل قضاء الدين دفعا للحبس والملازمة عن نفسه، وكل ما هو كذلك اعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش لنفسه أو دابته وثياب المهنة، وهذا أيضا راجع إلى نقصان الملك فإن لصاحب الدين أن يأخذه من غير رضاه ولا قضاء فكان ملكا ناقصا."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:160، ط:دار الفكر، بيروت)
تبيين الحقائقمیں ہے:
"قال رحمه الله (ونقصان النصاب في الحول لا يضر إن كمل في طرفيه) أي إذا كان النصاب كاملا في ابتداء الحول وانتهائه فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة وقال زفر رحمه الله يسقطها لأن حولان الحول على النصاب كاملا شرط الوجوب بالنص ولم يوجد وقال الشافعي في السائمة مثل قول زفر وفي عروض التجارة يعتبر النصاب في آخر الحول خاصة لأن النصاب فيه باعتبار القيمة فيشق على صاحبه تقويمه في كل ساعة لأن القيمة باعتبار رغبات الناس فيعسر عليه معرفة رغبتهم في كل ساعة فسقط اعتباره دفعا للحرج وفي آخره لا بد منه لأنه وقت الوجوب والزكاة لا تجب إلا في النصاب بالنص ولنا أن الحول لا ينعقد إلا على النصاب ولا تجب الزكاة إلا في النصاب ولا بد منه فيهما ويسقط الكمال فيما بين ذلك للحرج لأنه قلما يبقى المال حولا على حاله."
(كتاب الزكاة، باب زکاۃ المال، ج:1، ص:280، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511102627
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن