بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ ادا کرکے یہ کہنا کہ اب تو مال کی حفاظت ہوگئی ہے، اول تو گم نہیں ہو سکتا، پھر اگر گم ہو جائے تو مل جائے گا کہنے کا حکم


سوال

زکوۃ ادا کرکے یہ کہنا کہ اب تو مال کی حفاظت ہوگئی ہے ،اول تو گم نہیں ہو سکتا، پھر اگر گم ہو جائے تو مل جاۓ گا کہنا کیسا ہے؟

جواب

 زکوۃ کے فضائل سے متعلق ایک حدیث ِمبارک میں آتاہے كہ " زكوة  ادا كركےاپنے مالوں كی حفاظت كرو" اس حدیث سے واضح ہو تا ہے کہ زکوۃ ادا کرنے سےمال ان تمام آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے،جو زكوة نہ ادا كرنے كی وجہ سے پيش آتے ہيں ،مثلاً:  چوری،  ڈکیتی  وغیرہ  ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مال کی حفاظت کے دیگر جائز اسباب بھی اختیار نہ کیے جائیں ؛ لہذا  زکوۃ  ادا کرنے کے  اور مال کی حفاظت کے  دیگر اسباب بھی اختیار کیے جائیں، بعد ازاں اسباب اختیار کرنے کے بعد  یہ کہناکہ" یہ مال گم نہیں  ہوسکتا یا گم ہو بھی جائے تو مل جائے گا "،یہ اللہ  تعالی كے وعدہ  ‌"أوفوا ‌بعهدي أوف بعهدكم "پر  اور  حديثِ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکامل ایمان اور پختہ یقین  کی علامت  ہے۔

شعب الإيمان میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حصنوا أموالكم بالزكاة."

(الزكاة، فصل في القرض، ج: 3، ص: 283، رقم: 3559، ط: دار الكتب العلمية)

فیض القدیر شرح الجامع الصغيرمیں ہے:

"(حصنوا ‌أموالكم ‌بالزكاة) أي بإخراجها فإنه ما تلف مال في بئر ولا بحر إلا بمنع الزكاة كما سيجيء في خبر فأداء الزكاة كالحصن للأموال تحرس بها وتحصن بأدائها من آفات عقوبات تركها."

(فصل الحاء، ج: 3، ص: 388، رقم: 3728، ط: المكتبة التجارية الكبرى)

التنویر شرح الجامع الصغیر میں ہے:

"(حصنوا ‌أموالكم ‌بالزكاة) أي اجعلوا إخراجها يمنعها عن الآفات الدنيوية والعقوبات الأخروية فإنه ما تلف مال في بر أو بحر إلا بمنع الزكاة وسره أن الصدقة حق في مال الأغنياء للفقراء وهم عاجزون عن استيفائها من الأغنياء فإذا لم يخرجها من وجبت عليه انتصف الله منه للفقير بتلف مال الغني وإنزال الآفات به فإذا زكّاه سلم من ذلك."

(حرف الحاء مع الصاد، ج: 5، ص: 358، رقم: 3712، ط: مكتبة دار السلام)

الفقہ الإسلامی وأدلتہ میں ہے:

"فهي أولاً ـ تصون المال وتحصنه من تطلع الأعين وامتداد أيدي الآثمين والمجرمين، قال صلى الله عليه وسلم: «حصِّنوا ‌أموالكم ‌بالزكاة، وداووا مرضاكم بالصدقة، وأعدّوا للبلاء الدعاء»."

(الباب الرابع الزكاة، الفصل الأول، المبحث الأول، حكمة الزكاة، ج: 3، ص: 1790، ط: دار الفكر)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"وفي الشريعة يطلق التوكل على الثقة بالله والإيقان بأن قضاءه ماض، واتباع لسنة نبيه صلى الله عليه وسلم في السعي فيما لا بد له منه من الأسباب۔۔ذهب عامة الفقهاء، ومحققو الصوفية إلىأن التوكل على الله لا يتنافى مع السعي والأخذ بالأسباب من مطعم، ومشرب، وتحرز من الأعداء وإعداد الأسلحة، واستعمال ما تقتضيه سنة الله المعتادة، مع الاعتقاد أن الأسباب وحدها لا تجلب نفعا، ولا تدفع ضرا، بل السبب (العلاج) والمسبب (الشفاء) فعل الله تعالى، والكل منه وبمشيئته، وقال سهل: من قال: التوكل يكون بترك العمل، فقد طعن في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(حرف التاء، ج: 14، ص: 185، ط: وزارة الأوقاف الشئون الإسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں