1۔کسی شخص نے مدرسہ کو زکات کی رقم دیتے وقت کہا کہ یہ رقم طلباء کے کھانے میں استعمال کریں، تو کیا اس رقم سے باورچی کی تنخواہ اور گیس کا بل ادا کیا جا سکتا ہے؟
2۔کسی شخص نے دوسرے شخص کو زکات ادا کرنے کا وکیل بنایا، اور کسی خاص مصرف میں دینے کو کہا، مثلاً : کھانا خرید کر طلباء کو کھلا دو، تو اگر اس نے وہ رقم کسی اور مصرف میں دی جاسکتی ہے یانہیں؟
3۔ کسی شخص نے مستحقِ زکات کو زکات کی رقم خاص کام میں خرچ کرنے کی تلقین کے ساتھ دی تو کیا اس کےلیے صرف اس کام میں اس رقم کو استعمال کرنا لازم ہوگا یا اس کے کام کے علاوہ اپنی دیگر ضروریات میں بھی رقم خرچ کر سکتا ہے؟
4۔ ایک شخص نے طلباء کے لیے راشن دیا، اور دوسرے نے طلباء کے کھانے کی مد میں زکات کی رقم دی، تو مدرسہ والوں نے وہ رقم طلباء کو دی اور کہا کہ اس رقم سے مدرسے سے کھانا خرید کر کھاؤ، تو ایسا کرنا جائز ہے؟ جب کہ جو کھانا خرید کرکھایا جارہا ہے وہ طلباء کے لیے آیا ہو ہے؟
واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہےکہ زکوٰۃ کی رقم مستحقین کو بلا عوض مالک بنا کردی جائے، کسی بھی قسم کی خدمت اور محنت کے بدلے میں زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰة ادا نہیں ہوتی، اسی طرح زکوٰۃ کی رقم سے اگرعمومی دسترخوان پر کھانا کھلایا جائے، تو تملیک کی شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، البتہ اگرمستحقِ زکوٰۃ کو کھانا اس طور پر دیا جائے کہ وہ اگر کھانااپنے ساتھ لے جانا چاہے، تو لے جاسکتا ہو، کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہو، تو اس طرح کھانا دینے سے بھی زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔
1۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں طلبہ کے کھانے کے لیے دی گئی زکوٰۃ کی رقم سے باورچی کو تنخواہ دینا، گیس کا بل ادا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس رقم سے طلبہ میں مالکانہ طور پر کھانا تقسیم کرنا ضروری ہوگا، اسی طرح دسترخوان پر بٹھا کر کھلانے سے بھی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔یہ تملیک نہیں بلکہ اباحت ہے، جبکہ ادائیگی زکات کے لیے تملیک شرط ہے۔
2۔ اگر کسی آدمی نے کسی خاص مصرف میں زکوٰۃ ادا کرنے کا کسی کو وکیل بنایا ہو، تو وکیل کے لیے اسی خاص مصرف میں زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، وکیل کو مؤکل کے خلاف تصرف کرنے کا حق نہیں ہوگا ، خلاف ورزی کرنے کی صورت میں زکوٰة ادا نہیں ہوگی، اور وکیل مؤکل کی رقم کا ضامن ہوگا۔
3۔مستحقِ زکوٰۃ، زکوٰۃ وصول کرنے ے بعد مذکورہ رقم کا شرعاً مالک بن جاتا ہے، اپنی مملوکہ چیز میں اپنی مرضی سے تصرف کا حق دار ہوتا ہے، لہٰذا وہ حسبِ ضرورت مذکورہ رقم استعمال کرنے میں آزاد ہوگا۔
4۔ مدرسہ والوں کے لیے مستحق طلباء کے لیے دیا ہوا کھانا انہیں فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔
امداد الاحکام میں ہے :
”ایک شخص کو وکیل بنایا کہ وہ رقم زکوٰۃ اپنی ماں کو لے جاکر دیدے، اس نے درمیان میں خیانت کی کہ کچھ رقم خود صرف کر ڈالی ، اور کچھ اپنی ماں کو دیدی وہ شخص خود بھی مصرف زکوۃ ہے مگر اسکو وکیل بنایا گیا تھا مالک نہیں بنایا گیاتھا، اس صورت میں زکوۃ ادا ہو جائے گی یا بقدر خیانت پھر ادا کرنا پڑے گی ؟
الجواب: اگر وکیل خود بھی فقیر ہے جب بھی زکواۃ ادا نہ ہوگی ، البتہ جس قدر اس نے اپنی ماں کو دیدیا ہے اس قدر زکوۃ ادا ہو گئی ، باقی کا ضمان وکیل سے لے سکتے ہیں۔“
(کتاب الزکاۃ، ج : 2، ص : 1، ط : مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے :
”وکیل امین ہوتا ہے، ہدایتِ مؤکل کے خلاف تصرف کرنے کا اس کو حق نہیں ، خلاف کرنے سے وکیل کے ذمہ ضمان لازم آئے گا اور زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔“
(کتاب الزکاۃ، باب أدا ء الزکاۃ، ج : 9، ص : 495، ط : إدارۃ الفاروق)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
"فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين".
(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج : 1، ص : 188، دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے :
وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حولي خرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز تمليك المال: أي المعهود إخراجه شرعا (مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى) بيان لاشتراط النية".
(كتاب الزكاة، ج : 2، ص : 256 تا58، ط : سعيد)
وفيه ايضا :
"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل".
(كتاب الزكاة، ج : 2، ص : 269، ط : سعيد)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :
"وفيها: سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلى الآخر مالا فقال له " هذا زكاة مالى فادفعها إلى فلان" فدفعها الوكيل إلى آخر هل يضمن؟ قال:نعم، وله التعيين".
(كتاب الزكاة، الفصل التاسع :في المسائل المتعلقة بمعطى الزكاة، ج : 3، ص : 228، ط : زكريا ديوبند)
العنایۃ شرح الہدایہ میں ہے :
"وللمالك أن يتصرف في ملكه كيف يشاء".
(كتاب الوصايا، باب الوصية بثلث المال، ج : 10، ص : 442، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144605101258
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن