بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے مدرسے کے لیے جگہ (مکان) خریدنے کا حکم اور اس کا حیلہ


سوال

 ایک مدرسہ ہے جو کرائے کے مکان میں قائم ہے اور اس میں رہائشی طلبہ نہیں ہیں، مدرسہ والوں کی خواہش ہے کہ مدرسے کے لیے اپنی ذاتی ملکیت والی جگہ کا انتظام کیا جائے، ایسے میں کچھ اہل خیر حضرات زکوۃ کی مد میں مدر سے کے لیے ایک مکان خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں، آیا زکوۃ کی رقم سے مدرسے کے لیے جگہ خرید سکتے ہیں ؟ اور اگر زکوۃ کی رقم مدر سے کے لیے جگہ کی خریداری میں نہیں لگ سکتی تو مدر سے کے لیے جگہ خریدنے میں زکوۃ کی رقم استعمال کرنے کی کیا صورت ہے ؟

جواب

زکات کی رقم سے مدرسے کے لیے جگہ خریدنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ زکات کی رقم کسی مستحق زکات شخص کو بلا عوض مفت میں مالک بنا کر دینا ضروری ہے، ورنہ زکات ادا نہیں ہوگی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر زکات کی رقم سے براہِ راست  مدرسے کے لیے جگہ خریدی گئی تو زکات ادا نہیں ہوگی، اس لیے مدرسے کی انتظامیہ کو چاہیے کہمدرسہ کی جگہ خریدنے کے لیےزکوٰۃ کے علاوہ کی مد کا انتظام کریں،اور حتی الامکان کسی بھی قسم کے حیلہ سے بچنے کی کوشش کریں، تاہم اگر کوئی انتظام نہ ہو سکے اورعلاقےکے لوگ بھی غریب ہوں، اور صرف زکوٰۃ کی رقم ہی مل رہی ہو اور جگہ کی شدید ضرورت بھی ہو تو اس صورت میں مدرسہ کے لیے مکان خریدنے کی صورت  یہ ہے کہ کسی غریب مستحق زکات شخص سے کہا جائے کہ وہ کسی سے قرض لےکر مکان خریدکر مدرسہ کے لیے وقف کردے اور ہم آپ کا قرض اتارنے کا انتظام کردیں گے، پھر اگر وہ مستحق زکات غریب شخص کسی سے قرض لے کر زمین خرید کر مدرسہ کےلیے وقف کردے تو اس کو قرض  اتارنے کے لیے زکوٰۃ کی رقم دے دیں ، اس طرح زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اور مدرسہ کو زمین بھی مل جائےگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).

و في الرد: (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر،ج:2،ص:344،ط:سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وبناء مسجد) أي لا يجوز أن يبنى بالزكاة المسجد لأن ‌التمليك ‌شرط فيها ولم يوجد وكذا لا يبنى بها القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب المصرف ،ج:1،ص:300،ط:دارالکتا ب الإسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وحيلة التكفين بها التصدق على فقير ثم هو يكفن فيكون الثواب لهما وكذا في تعمير المسجد...وأخرج السيوطي في الجامع الصغير لو مرت الصدقة على يدي مائة لكان لهم من الأجر مثل أجر المبتدئ من غير أن ينقص من أجره شيء."

(کتاب الزکوۃ، 2/ 271 ،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں