بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے خریدی ہوئی جگہ کو مدرسہ میں استعمال کرنا


سوال

ہمارے ایک ساتھی نے زکوۃ کے مال سے ایک جگہ خریدی تھی، جس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس پر عمارت بنا کر مستحقین زکوۃ کو دے دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے تین منزلہ تعمیر کروائی اور بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور کے علاوہ سب منزلیں مستحقین زکوۃ کو مالک بنا کر دے دیں، لیکن بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور میں وہ چاہتے ہیں کہ مدرسہ بنا کر خود اسے چلائیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ :

کیا اس طرح مدرسہ بنانا درست ہے؟ کیا اس طرح کرنے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی؟ شرعی راہ نمائی فرمادیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں زکوۃ کی رقم سے خریدی ہوئی اور تعمیر کردہ جگہ  کے گراؤنڈ فلور اور بیسمنٹ کو مدرسہ کے طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے، ایسا کرنے سے زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، زکوۃ وصول کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ باقی منزلوں کی طرح گراؤنڈ فلور اور بیسمنٹ کو بھی مستحقیں میں تقسیم کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(يصرف) المزكي (الي كلهم او الي بعضهم ) و لو واحد من اي صنف  كان؛ لان ال الجنسية تبطل الجمعية و شرط الشافعي ثلاثة من كل صنف و يشترط ان يكون الصرف تمليكا لا اباحة كما مر (لا ) يصرف (الي بناء) نحو (مسجدو ) لا الي (كفن ميت و قضاء دينه ) اما دين الحي الفقير فيجوز لو بامره ولو اذن فمات فاطلاق الكتاب يفيد عدم الجواز و هو الوجه نهر

)قوله:نحو مسجد) كبناء القناطر و السقايات و اصلاح الطرقات و كري  الانهار و الحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه زيلعي."

)کتاب الزکوۃ، باب المصرف، ج نمبر۲، ص نمبر۳۴۴،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں