ایک فلاحی تنظیم زکوۃ کی بڑی رقم وصول کرتی ہے اور اگلے مہینے میں تقسیم کی جاتی ہے، بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھی جاتی ہے ،کیا یہ رقم اسلامی بینک یا منی مارکیٹ فنڈ میں رکھی جاسکتی ہے؟ تاکہ منافع اصل رقم کے ساتھ ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاسکے کیا یہ شرعاًجائز ہے؟
صورت مسئولہ میں زکوۃ کی رقم کو کسی بھی بینک میں ،منی مارکیٹ فنڈ میں یا تجارت میں لگا کر منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہے ،ایسی صورت میں زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی ،اور ایسا کرنے والا اداراہ اس رقم کا ضامن ہوگا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
" وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.
الوديعة لاتودع ولاتعار ولاتؤاجر ولاترهن، وإن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."
(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها،ج:4،ص:338، ط: دار الفكر)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"وفي القنية ولا يجوز للقيم شراء شيء من مال المسجد لنفسه ولا البيع له وإن كان فيه منفعة ظاهرة للمسجد. اهـ.... أن القيم ليس له إقراض مال المسجد قال في جامع الفصولين ليس للمتولي إيداع مال الوقف والمسجد إلا ممن في عياله ولا إقراضه فلو أقرضه ضمن وكذا المستقرض وذكر أن القيم لو أقرض مال المسجد ليأخذه عند الحاجة وهو أحرز من إمساكه فلا بأس به وفي العدة يسع المتولي إقراض ما فضل من غلة الوقف لو أحرز. اهـ."
( كتاب الوقف، تصرفات الناظر في الوقف،ج:5،ص:259،ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101158
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن