بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم سے مستحقِ زکوۃ کا قرضہ ادا کرنے کا حکم/ یا مکان تعمیر کرکے مستحقِ زکوۃ کو دینے کا حکم


سوال

 ایک شخص نے دوسرے کو اپنی زکوٰۃ کا مال دے کر کہا کہ اس سے فلاں شخص کا قرضہ ادا کردو، کیا وکیل اس مال کے ذریعے اس مقروض کے لیے رہائشی گھر خرید سکتا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ زکات کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے مستحقِ  زکات کی تملیک ضروری ہے، بغیر تملیک  کیے ہوئے زکات کی رقم صرف کرنے سے زکات ادا نہیں ہوگی، لہذا زکات کی رقم سے بغیر تملیک یا اجازت کے مستحقِ زکات کی  طرف سے زکات کی رقم سے قرضہ ادا کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی وہ زکات ادا ہوگی الّا یہ کہ وہ رقم مستحقِ زکات کے حوالے کرکے یا اس کی اجازت  سے (یعنی اس کی طرف سے بطورِ وکیل زکات پر قبضہ کرکے) قرضہ ادا کیا جائے تو  زکات درست  ہوجائے گی۔

باقی  مذکورہ رقم سے مکان تعمیر کرکے  مستحقِ زکات کو  ملکیت کے طور پر دینا جائز ہے،جب یہ مکان مستحق کی ملکیت میں آئے گا، تب زکات ادا ہوجائےگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و يشترط أن يكون الصرف (تمليكًا) لا إباحةً كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) أما دين الحي الفقير فيجوز لو بأمره.

(قوله: تمليكًا) فلايكفي فيها الإطعام إلا بطريق التمليك ولو أطعمه عنده ناويًا الزكاة لاتكفي ط و في التمليك إشارة إلى أنه لايصرف إلى مجنون و صبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ كما في المحيط قهستاني وتقدم تمام الكلام على ذلك أول الزكاة.

(قوله: كما مر) أي في أول كتاب الزكاة ط (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر ." 

(كتاب الزكوة، ج:2، ص:344، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144207200942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں