زکوۃ کے کچھ مسائل میں رہنمائی درکار ہے :
1۔زید نے دکان کرائے پر لی جس میں وہ اپنا کاروبار کر رہا ہے، مالکِ دکان نے ایڈوانس میں مثلا دو لاکھ نقد روپے اپنے پاس رکھ لیے تھے، دکان کا کرایہ متعین ہے ،اب متعین کرایہ آدھا ایڈوانس میں سے وصول کرتا ہے اور آدھا کرایہ دار سے نقد لیتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایڈوانس میں جو سال کے بعد نقد بچ جاتا ہے اس پر زکوۃ ہے کہ نہیں؟
2۔شمسی اور قمری سال میں 10 دن کا فرق ہوتا ہے تو آیا ان دس دن میں زکوۃ میں کچھ فرق پڑتا ہے یا نہیں ،تو ہمیں کس سال کے حساب سے زکوۃ ادا کرنی چاہیے ؟
3۔ایک ساتھ پوری زکوۃ دینا ہمارے لیے مشکل ہے تو ہم حساب کرنے کے بعد تھوڑی تھوڑی اگر زکوۃ ادا کر لیں تو شریعت کی روشنی میں ہمارا یہ عمل کیسا ہے ؟
4۔زکوۃ کے لیے خیرات اکٹھا کرنے والے بھکاری آتے ہیں ،مرد و عورتیں ،ان کو دینے سے زکوۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں؟
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب ذکر کیے جاتے ہیں:
1۔کرایہ داری کے معاملہ میں زر ضمانت کے طور پر مالک کے پاس جو رقم رکھوائی جاتی ہے وہ ابتداءً امانت ہوتی ہے اوراس کااصل مالک کرایہ دارہی ہوتا ہے، اور یہ رقم کرایہ دار کو بعد میں واپس ملتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں زید نے جو رقم بطور ایڈوانس دی ہے اس میں سے آدھا کرایہ کے طور پر مالک نے جتنی رقم کاٹ دی اس پر زکات نہیں ،البتہ اگر وہ ایڈوانس کی رقم جو کرایہ ادا کرنے کے بعد بچ جائے تنہا یا یا کرایہ دار کے پاس موجود دوسرے زکات کے اموال کے ساتھ مل کر زکات کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کو پہنچ جائے تو اس کی زکات کرایہ دار کے ذمہ ہے، البتہ اس ( ایڈوانس میں دی ہوئی رقم کی زکات) کی ادائیگی فوری لازم نہیں ہے، بلکہ مذکورہ رقم کی وصولی کے بعد دینا لازم ہوگی، اس صورت میں سابقہ سالوں کی زکاۃ کی ادائیگی بھی لازم ہوگی،تاہم اگر زکاۃ کا سال پورا ہوجائے تو وصولی سے پہلے بھی اس کی زکاۃ ادا کرسکتے ہیں۔
2۔واضح رہے کہ شرعی احکامات میں قمری سال کا اعتبار کیا جاتاہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزے اور حج کی عبادت سے واضح ہے، اسی طرح زکات کی ادائیگی کے وجوب کا تعلق بھی قمری سال سے ہے، نہ کہ شمسی سال سے ، اس لیے کہ شمسی سال قمری سال سے دس يا گیارہ دن بڑا ہوتا ہے، تاریخ کی تبدیلی سے ملکیت میں موجود مالیت میں کمی بیشی ہوسکتی ہے، نتیجتاً زکات کی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کا امکان رہتاہے، لہذا زکات کی ادائیگی کے لیے قمری سال کے اعتبار سے ایک تاریخ متعین کر کے مقررہ تاریخ کو ہر سال زکات کا حساب کر نا لازم ہے۔
3۔کل مال کی جتنی زکات بنتی ہے اس کو متعین کرلیں پھر آپ ایک مرتبہ میں بھی ادا کرسکتے ہیں اورتھوڑی تھوڑی کرکے حسب سہولت ادا کرتے رہیں یہ بھی جائز ہے۔تاہم جس قدر جلد ہو زکاۃ اداکردینی چاہیے۔
4۔ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، تاہم اس میں متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا جائے، انہیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ طریقہ سے معذرت کرلی جائے۔اگر کسی بھکاری کے بارے میں غالب گمان ہو کہ یہ مستحقِ زکاۃ نہیں ہے، یا یہ گمان ہو کہ پیشہ ور ہے، تو ایسے شخص کو زکاۃ یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینے چاہییں۔لیکن اگر ان میں سے کسی سے متعلق غالب گمان مستحق ہونے کا ہو اور اسے زکاۃ دے دی تو زکات ادا ہوجائے گی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب."
(كتاب الزكاة،ج: 2، ص: 259، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضاً:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم."
(كتاب الزكوة ، باب زكوة المال، ج: 3 ص: 123 ط: سعید)
الدر مع الرد میں ہے:
"(وحولها) أي الزكاة (قمري) بحر عن القنية (لا شمسي)."
(کتاب الزکا،ج:2۔ص:294،ط:سعید)
درر الحكام میں ہے:
"(قوله: وشرطه الحولان) قال في القنية: العبرة في الزكاة للحول القمري".
(كتاب الزكاة،ج:1،ص:174،ط:دار إحياء الكتب العربية)
الدر المختار مع الرد میں ہے:
"مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.(ومسكين من لا شيء له) على المذهب، - لقوله تعالى {أو مسكينا ذا متربة} [البلد: 16]- وآية السفينة للترحم."
(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ و العشر،ج:2، ص:339، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102145
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن