بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ مہینہ کے حساب سے ادا کی جائے یا سال کے حساب سے ادا کی جائے؟


سوال

 کیازکوة ہرمہینہ کے اعتبارسے ادا کی جاسکتی ہے ؟ صورتِ  مسئلہ:  عمر کی کپڑے کی دکان ہے اور ہر دو ماہ بعد خریداری کرتاہے توکیاعمر ہرماہ کےاعتبارسے زکوة اداکرے یاسال کےبعد اداکرے ، یعنی جیسے  اس ماہ  کی خریداری پر سال گزر گیا؟ یاپھرسال کے ایک ماہ کومختص کرکے ہرسال موجودہ مال کاحساب کرکےاداکرے ؟ 

جواب

جواب سے پہلے چند باتوں کا تمہید کے طور پر جاننا ضروری ہے:

۱) زکات صاحب نصاب شخص پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتی ہے  اور جس دن وہ صاحبِ  نصاب بنا تھا سال کے حساب میں اس دن کا اعتبار ہوتا ہے،مثلًا کوئی شخص صفر کی  پندرہ تاریخ کو صاحبِ نصاب بنا تھا تو  اگلے سال پندرہ صفر کو اس شخص پر  زکات کی ادائیگی واجب ہوگی۔اس مذکورہ تاریخ کو اس شخص  کے پاس جتنا سونا چاندی،نقدی یا مال تجارت   ہوگا اس پر ڈھائی فیصد  زکات واجب ہوگی۔

۲)سال کے دوران جو مال میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے لیے الگ  سال کا حساب نہیں کیا جاتا ، بلکہ وہ  سال کے حساب میں پرانے اموال کے تابع ہوتا ہے ،مثلًا  مذکورہ مثال میں جو شخص صفر کی  پندرہ کو صاحبِ  نصاب بنا پھر ربیع الثانی کی پہلی تاریخ کو اس کے مال میں اضافہ ہوا (چاہے کہیں سے ہدیہ ملا یا کاروبار میں نفع ہوا ) تو اس اضافی مال کی  زکات بھی اگلے سال پندرہ صفر کوادا کرنا واجب ہوگی،ایسا نہیں ہوگا کہ اس اضافی مال کی  زکات پہلی ربیع الثانی  کو واجب ہو۔

۳)اگر کسی شخص کو اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ صاحبِ نصاب کس تاریخ کو بنا ہے تو  وہ پھر کوئی بھی ایک تاریخ اپنے  زکات کے سال کے لیے متعین  کرلے، مثلًا پہلی رمضان اور پھر ہر سال اس تاریخ کو اپنے سونے چاندی،نقدی،مال تجارت کا حساب کرے اور اس پر ڈھائی فیصد  زکات دےدے۔

اس تمہید کے بعد سوال کا جواب  یہ ہے کہ سائل سالانہ ہی اپنے مالِ تجارت(کپڑے) اور نقدی کا حساب کرے اور اس پر  زکات ادا کرے  ۔سال کے حساب میں اس مہینہ کا اعتبار ہوگا جس مہینہ سائل صاحبِ نصاب بنا تھا اور اگر وہ تاریخ یاد نہیں ہے تو پھر اپنی صواب دید  پر ایک تاریخ متعین کرلے  اور اس تاریخ کو سارا حساب کتاب کر کے  زکات ادا کردے۔

سائل کا یہ کہنا کہ "عمر ہرماہ کےاعتبارسے  زکات اداکرے یاسال کےبعد اداکرے  ...یعنی جیسے اس ماہ کی خریداری پر سال گزر گیا؟ " درست نہیں؛ کیوں کہ جیسے تمہید میں گزر چکا کہ ہر حاصل ہونے والے مال کا سال الگ شمار نہیں ہوتا، بلکہ اسے موجودہ مال میں ضم کردیا جاتا ہے، اور  سال کے درمیان آنے والی رقم یا مال کا الگ الگ حساب لگانا ضروری  نہیں ہوتا،  چناں چہ سال کے درمیان جو مال خرچ ہوگیا یا قیمتوں میں کمی بیشی ہوگئی اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، جب زکات کا سال پورا ہو، اس وقت موجود  مجموعی مالیت پر زکات کا حساب ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 175)ط دار الفکر:

"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملًا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لايسقط الزكاة كذا في الهداية. ولو استبدل مال التجارة أو النقدين بجنسها أو بغير جنسها لا ينقطع حكم الحول، ولو استبدل السائمة بجنسها أو بغير جنسها ينقطع حكم الحول كذا في محيط السرخسي.
ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں