بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارے کے لیے زکات وصول کرنے والے کے لیے زکات کی رقم اپنی ذات کے لیے استعمال کا حکم


سوال

کیا ادارے کے لیے زکات وصول کرنے والا شخص جو مستحق زکات ہو وصول شدہ زکات کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں کسی ادارے کے لیے زکات کی رقم وصول کرنے والے کے لیے مستحق زکات ہونے کے باوجود زکات کی رقم اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت، ولو تصدق بدراهم نفسه أجزأ إن كان على نية الرجوع وكانت دراهم الموكل قائمة.(قوله: ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اهـ تأمل، ثم قال في التتارخانية أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات؛ وكذلك المتولي إذا كان في يده أوقيات مختلفة وخلط غلاتها ضمن وكذلك السمسار إذا خلط الأثمان أو البياع إذا خلط الأمتعة يضمن. اهـ. قال في التجنيس: ولا عرف في حق السماسرة والبياعين بخلط ثمن الغلات والأمتعة اهـ ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن. قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة   ..... (قوله: ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع، وعلى هذا التفصيل الوكيل بالإنفاق أو بقضاء الدين أو الشراء كما سيأتي إن شاء الله - تعالى - في الوكالة".

(كتاب الزكاة، ج: ۲، ص:۲۶۹، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

الجواب حامداً ومصلیاً:

’’ مدرسہ کی طرف سے جو شخص محصل مقرر کیا گیاہے، وہ امین ہے، جتنا روپیہ زکوۃ وصدقات کا وصول کرتا ہے، وہ امانت ہے، اس میں تصرف کرنے کا حق نہیں،ایسی صورت میں زکوۃ ادانہیں ہوگی، اور لازم ہوگا کہ اس کا ضمان معطی کو دے اور کہدے کہ آپ کا دیا ہوا روپیہ میں نے خرچ کرلیا، زکوۃ ادا نہیں ہوئی، اس لئے یہ روپیہ بطور ضمان دے رہا ہو، یا اگر معطی کی طرف سے صرف کرنے کی اجازت ہو تو بطور قرض اس کو صرف کر سکتا ہے، پھر قرض مدرسہ کو واپس کرکے مصارف زکوۃ پر صرف کردیا جائے‘‘۔

( کتاب الزکوٰۃ،باب اداء الزکوۃ،  ج:9، ص:4 89۔491،ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں