1۔اساتذہ کرام کی تنخواہیں عطیات کی مد میں سے دیناچاہئیں یا زکوۃ و صدقات کی مد میں سے ؟اگر کسی ادارے کو عطیات کی رقم اتنی نہ ملتی ہو کہ اس سے تنخواہیں پوری کرسکیں توکیا زکوۃوصدقات کی رقم میں سے دیناصحیح ہے یا نہیں؟
2۔کسی ادارے کو لوگ غریبوں میں خرچ کرنے کے لیےراشن کی مد میں تعاون کرتےہیں پھر ادارے والے از خود اس راشن میں سے کچھ پکاکرجیسے روٹی ،سالن وغیرہ بناکر بازار کے ریٹ سے کم ریٹ میں فروخت کرتے ہوں، تاکہ غریب لوگوں کو کم ازکم ریٹ میں چیزیں مل سکیں تو اس طرح کرناکیسا ہے؟
اور جن کو مزدور بنایا ہےان کو اس رقم سے تنخواہ دینا ،مخیر حضرات کے لیےاس سالن اور روٹی سے فائدہ اٹھانا کیساہے؟
1۔ زکاة اور صدقاتِ واجبہ (فطرہ، فدیہ، کفارہ اور نذر) کی رقم اساتذہ کی تنخواہوں کی مد میں دینا جائزنہیں ہے ۔ لہذا اساتذہ کی تنخواہیں عطیات کی مد میں سے دی جائیں ۔
2۔ادارے کے ذمہ دار ان کوغریبوں میں خرچ کرنے کے لیے جتناراشن دیاجاتاہے ، ذمہ دارا ن اس کے امین ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ اس راشن کو دینے والوں کی منشا کے مطابق غریبوں میں تقسیم کرے،ادارے والوں کا راشن دینے والوں کی اجازت کے بغیراز خود اس راشن سے روٹی،سالن بناکرغریبوں پر بازاری ریٹ سے کم قیمت میں بیچناجائز نہیں ہے،پھر اس سےحاصل ہونے والی رقم سے مزدور کو تنخواہ دینابھی جائز نہیں ہے ، نیز غریبوں میں خرچ کرنے کے لیے دیے ہوئے راشن سےمخیر حضرات کا فائدہ اٹھانابھی جائز نہیں ہے۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله."
(كتاب الزكوة،الباب الاول:في تفسيرها۔۔۔۔ج:1،ص:232، ط : دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"لأن الوكيل يتصرف بولاية مستفادة من قبل الموكل فيملك قدر ما أفاده، ولا يثبت العموم إلا بلفظ يدل عليه، وهو قوله: اعمل فيه برأيك وغير ذلك مما يدل على العموم."
(كتاب الوكالة ، فصل في بيان حكم التوكيل ، ج : 6 ، ص : 28 ، ط: دار الكتب العلمية)
الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:
"تتعلق بالوكيل أحكام، منها:الأول: أن يقوم الوكيل بتنفيذ الوكالة في الحدود التي أذن له الموكل بها أو التي قيده الشرع أو العرف بالتزامها."
(وكالة، أحكام الوكالة:الحكم الأول، تنفيذ الوكالة، ج:45، ص:37، ط:دارالسلاسل)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’زکوۃ کے پیسہ سے تنخواہ دینا جائز نہیں، جب مستحق کے پاس بطورِ ملک پہنچ جائےگا تب زکوۃ ادا ہوگی، پھر وہ بغیر کسی دباؤ کے اپنی طرف سے بطیب خاطر مدرسہ میں دے دے تو تنخواہ میں دینا درست ہوگا‘‘۔
(کتاب الزکوۃ،ج:15، ص:596،دارا لافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101322
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن