بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زکات واجب ہونے کے بعد ادائیگی میں تاخیرکرنے کا حکم


سوال

ہم اپنی برادری کے لوگوں سے زکوۃ کی رقم وصول کرتے ہیں اور پھر حسب ضرورت اپنی برادری ہی کے مستحق افراد پر خرچ کرتے ہیں اس کے بارے میں کچھ سوالات پوچھنے ہیں ۔

1۔ہماری جماعت کے پاس جو زکوۃ کی رقم جمع ہوتی ہے کیا ضروری ہے کہ اس کو  سال ختم ہونے سے پہلے ختم کیا جائےیا  اگر ہم مناسب سمجھیں تو آئندہ سال تک بچا کر چلائیں اورحسب ضرورت تقسیم  کرتے رہیں؟

2۔ کیا جماعت کے انتظامی امور جیسے دفتر وغیرہ بنوانے  کے لیے زکوٰۃ کو تملیک کے ذریعے استعمال کر سکتے ہیں ؟کیونکہ صاف پیسہ بہت کم آتا ہے اور اجتماعی معاملات کے لیے دفتر وغیرہ کی ضروریات اور دفتر خریدنے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہوتے۔

3۔ کیاکوئی ایسا ضرورت مند جو صاحب نصاب ہو لیکن انتہائی مجبور ہو اس کو زکوۃ کی ادائیگی حیلہ تملیک کے ذریعے کر سکتے ہیں ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ لوگوں سے زکوٰۃ جمع کرنے والےادارے کی حیثیت زکوٰۃ  دینے والوں کے وکیل کی ہوتی ہے،یعنی جب تک ایسے ادارے لوگوں کی زکوٰۃمستحقین میں تقسیم نہیں کر دیتے زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ  واجب الاداء رہتی ہے، لہذا صورت مسئولہ  میں ہر سال کی زکوٰۃمستحقین میں  مالکانہ طور پر تقسیم کرنا مذکورہ ادارہ کے ذمہ داران پر شرعاًلازم ہو گا، کئی کئی سال تک زکوٰۃ کی مد میں جمع شدہ رقم مذکورہ ادارے میں جمع رکھنے کی  شرعااجازت نہیں ہو گی۔

2۔جماعت کے انتظامی امور جیسے دفتر وغیرہ بنوانے کے لئے حیلہ تملیک اختیار کرنے کی اجازت نہیں  ہوگی۔

3۔ جب تک کوئی شخص صاحب نصاب ہو، اس کے لیے  حیلہ تملیک کرنا درست نہیں، البتہ  جب وہ مستحق ہو جائےتو   زکوٰۃ کےمستحق ہونے  کی وجہ سے اسے  زکوٰۃدی جا سکتی ہے۔ 

معارف القرآن میں ہے:

"تفصیل مذکور سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آج کل جو اسلامی مدارس اور انجمنوں کے مہتمم یا ان کی طرف سے بھیجے ہوئے سفیر صدقات زکوٰۃ وغیرہ مدارس اور انجمنوں کے لیے وصول کرتے ہیں ،ان کا وہ حکم نہیں جو عاملین صدقہ کا اس آیت میں مذکور ہے کہ زکوۃ کی رقم میں سے ان کی تنخواہ دی جا سکے بلکہ ان کو مدارس اور انجمن کی طرف سے جداگانہ تنخواہ دینا ضروری ہے، زکوٰۃ کی رقم سے ان کی تنخواہ نہیں  دی جا سکتی، وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ فقراء کے وکیل نہیں بلکہ اصحاب زکوٰۃ مالداروں کے وکیل ہیں ان کی طرف سے مال زکوٰۃ کو مصرف پر لگانے کا ان کو اختیار دیا گیا ہے، اس لیے ان کے قبضے ہو جانے کے بعد بھی زکوٰۃ اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک یہ حضرات اس کو مصرف پر خرچ نہ کر دیں ،فقراء کا وکیل نہ ہونا اس لیے ظاہر ہے کہ حقیقی طور پر کسی بھی فقیر نے ان کو اپنا وکیل بنایا نہیں اور امیر المومنین کی ولایت عامہ کی بنا ءپر جو خود بخود وکالت فقراء حاصل ہوتی ہے وہ بھی ان کو حاصل نہیں ،اسی لیے بجز اس کے کوئی صورت نہیں کہ ان کو اصحاب زکوٰۃ کا وکیل قرار دیا جائے، اور جب تک یہ اس مال کو مصرف پر خرچ نہ کر دیں ان کا قبضہ ایسا ہی ہے جیسا کہ زکوٰۃ کی رقم  خود مال والے کے پاس رکھی ہو،اس معاملہ میں عام طور پر غفلت برتی جاتی ہے بہت سے ادارے زکوٰۃ کا فنڈ وصول کر کے اس کو سالہا سال رکھے رہتے ہیں، اور اصحاب زکوٰۃ سمجھتے ہیں کہ ہماری زکوٰۃ ادا ہو گئی حالانکہ ان کی زکوٰۃ اس وقت ادا ہوگی جب ان کی رقم مصارف زکوٰۃ میں صرف ہو جائے اسی طرح بہت سے لوگ ناواقفیت سے ان لوگوں کو عاملین صدقہ کے حکم میں داخل سمجھ کر زکوۃ ہی کی رقم سے ان کی تنخواہ دیتے ہیں یہ نہ دینے والوں کے لیے جائز ہے نہ لینے والوں کے لیے۔"

(سورت توبہ،آیت نمبر:60،ط:ادارۃ المعارف کراچی)

فتاوٰی ھندیہ میں ہے:

"إذا ‌دفع ‌الزكاة ‌إلى ‌الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها أو يقبضها للفقير من له ولاية عليه نحو الأب والوصي يقبضان للصبي والمجنون كذا في الخلاصة."

(کتاب الزکوۃ،باب السابع فی المصارف،ج:1،ص:190،ط: رشیدیہ)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وافتراضها عمري أي على التراخي وصححه الباقاني وغيره  وقيل فوري أي واجب على الفور وعليه الفتوى كما في شرح الوهبانيةفيأثم بتأخيرها  بلا عذر۔۔۔۔۔۔۔۔قوله فيأثم بتأخيرها إلخ ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان وقد يقال المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل لما في البدائع."

(کتاب الزکاۃ،ج:2 ،ص:272،ط :سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"و أما بقية الصدقات المفروضة والواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلا يجوز صرفها للغني لعموم قوله عليه الصلاة والسلام: " لاتحل صدقة لغني"خرج النفل منها؛ لأن الصدقة على الغني هبة، كذا في البدائع."

(کتاب الزکوٰۃ، باب مصرف الزکوٰۃ، ج: 2، ص: 263، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144609100072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں