کیا ایک غریب آدمی جس کو لوگ اتنی امداد دے دیں کہ اس کے پاس مطلوبہ رقم جمع ہو جائے، جس پہ زکات فرض ہو جاتی ہے، کیاایسے آدمی کو زکات دینا پڑے گی ؟ جب کہ وہ خود زکات لیتا ہو ؛ کیوں کہ اس کا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے!
مذکورہ شخص جس وقت صاحبِ نصاب بنا، اس کے بعد قمری حساب سے سال پورا ہونے پر اگر اس کے پاس نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مال موجود ہو تو اس پر زکات ادا کرنا فرض ہوگا۔ نیز صاحبِ نصاب بننے کے بعد اگرچہ سال پورا نہ ہوا ہو، اس کے لیے زکات وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، اگرچہ اس کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو۔
فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلًا عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي."
(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209201030
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن