کیا زکوٰۃ اور صدقے کے پیسوں سے قرآن خرید کر لوگوں میں تقسیم کرنا جائز ہے؟
زکوة کی ادائیگی کے لیے مستحقِ زکوٰة کو مال ِ زکوة کا مالک بنانا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں قرآن مجید زکوۃ اور صدقات واجبہ (صدقہ فطر،فدیہ،نظر اور کفارات) کی رقم سے خرید کر مستحق ِزکوۃ غریب بچوں اور بڑوں کو مالک بنا کر دینے سے زکوۃ ادا ہو جائیگی ،اور صدقہ جاری کا ثواب ہو گا،البتہ زکوةکی رقم سے قرآن کریم خرید کر مسجد میں رکھنا جائز نہیں ہوگا ،تاہم صدقاتِ نافلہ/خیرات کے پیسوں سے قرآن مجید خرید کر مستحق وغیر مستحق افراد میں تقسیم کرنا اور مسجد میں رکھنا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء."
(کتاب الزکاۃ، باب زکوۃ الغنم، ج: 2، صفحہ: 285، ط: ایچ، ایم، سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين".
(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج: 1، صفحہ: 170، دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وكما لا يجوز صرف الزكاة إلى الغني لا يجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم "لا تحل الصدقة لغني"، ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولا يجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني.
وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة"
(کتاب الزکوۃ،فصل شرائط ركن الزكاة،ج:2،ص:47،ط:دار الکتب العلمیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609100428
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن