مجھے میرے بھائی نے زکوٰۃ کے کچھ روپے دیے کہ فلاں شخص کو دینے ہیں ، میری ملاقات کافی عرصہ سے اس شخص سے نہیں ہوئی اور ضرورت پڑنے پر وہ پیسے میں نے اپنے مصرف میں استعمال کر لیے، اب مجھے صحیح طرح پتا نہیں کہ وہ شخص کہاں ہے، کیا میں وہ رقم کسی اور مستحق کو دے سکتا ہوں؟
واضح رہے کہ کسی شخص کا دوسرے شخص کو اپنی جگہ کسی جائز اور متعین تصرف میں قائم مقام بنانا وکالت کہلاتاہے،عقد وکالت میں وکیل مؤکل کاتابع ہوتاہے، یعنی وکیل اتنے ہی تصرف کااختیار رکھتاہے جتنا مؤکل نے اسے دیا ہو ، باقی معاملات کی طرح ادائے زکوۃ کے لیے بھی کسی شخص کو وکیل بنانا جائز ہے،جس میں وہ مؤکل کے قول کا پابند ہوگا، پھر وکیل کے لیے زکاۃ کا مال اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس کے ہاتھ میں یہ مال امانت رہے گا جسے موکل کی ہدایت کے مطابق صَرف کرنا لازم ہوگا، تاہم اگر موکل نے وکیل کو مکمل اختیار دے دیا ہو اور یوں کہہ دیا ہو کہ "جو چاہے کرو، جسے چاہے دو" اس صورت میں اگر وکیل زکات کا مستحق ہو تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے۔
صورت مسئولہ میں جب سائل کو اس کے بھائی نے زکوۃ کی رقم دی اور ایک متعین شخص کو زکوۃ کی رقم دینے کا کہا، تو اب اس کی اجازت کے بغیر کسی اور کو زکوۃ کی رقم دینا یا خود استعمال کرنا جائز نہیں ، اس سے مؤکل کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، اس صورت میں سائل ضامن ہو گا، تا ہم بھائی کی اجازت کے ساتھ کسی دوسرے مستحق شخص کو یہ رقم دی جا سکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره."
(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:269، ط: سعید)
فتاوی تاتارخانیة میں ہے:
"سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال له: "هذا زکاة مالي فادفعھا إلی فلان فدفعھا الوکیل إلی آخر ھل یضمن؟ فقال: نعم، له التعیین."
( کتاب الزکوة، ج:3،ص؛228،ط:مکتبه زکریا دیوبند)
فتاوی شامی میں ہے :
"وللوكيل أن يدفع لولده الفقير وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال: ربها ضعها حيث شئت."
(کتاب الزکوۃ ، ج:2، ص:269 ،ط:سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101633
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن