بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ذخیرہ اندوزی کا حکم


سوال

 پچھلے سال ہم نے چار بوری گندم خرید لی تھی  اور پورا سال اس نیت سے ذخیرہ کیا تھا کہ جب مہنگی  ہو جاۓ گی  تو ہم اس کو استعمال میں لائیں گے، لیکن چوں کہ پچھلے سال کےاندر گندم مہنگی  نہیں ہوئی  ؛ اس لیے ہم نے اس میں سے گندم استعمال نہیں کیا ،کیا یہ ذخیرہ اندوزی میں شامل ہے اور اس جیسی گندم خرید کر رکھ لینا کس قسم کا گناہ ہے؟

نوٹ: پچھلے سال سے  اب تک مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر آپ نے گندم اپنے کھانے کے لیے ہی لی تھی، لیکن گندم کی قیمت معمول کے مطابق رہنے کی وجہ سے اس ذخیرہ کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا، اور آپ نے استعمال نہیں کی تو اس میں حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نے یہ گندم بیچنے کی نیت سے لی تھی تو  اس  طرح کے معاملے کی دو صورتیں ہیں:

1. اگر اس غرض سے روکے رکھا ہو کہ سیزن ختم ہونے کے بعد جب اس کی قیمت بڑھ جاۓگی تو اس کو مناسب نفع  کے ساتھ بیچ  دوں گا اور  بازار میں گندم ملتی  رہی  جس سے علاقے والوں کو ضرر  نہ ہوتو یہ صورت جائز ہے۔

2. اگر   یہ غذائی جنس بازار میں نایاب ہو   یا غیر مناسب قیمت کے  ساتھ ملتی ہو  جس سے علاقے والوں کو ضرر ہو تو اس کی ذخیرہ اندوزی کرنا جائز نہیں ، ایسا آدمی سخت گنہگار ہے اور اس پر لعنت ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  گندم خرید کر جمع کرنے  سے  بازار میں ختم نہیں ہوئی جس سے علاقے والوں کو ضرر ہو ،لہذا یہ صورت جائز ہے، ہاں اگر گندم بازار سے ختم ہوجاۓ اور   علاقے والوں کو ضرر   ہو  تو پھر وہ  ذخیرہ اندوزی ہے،   اس سے بچنا ضروری ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث 'الجالب مرزوق والمحتكر ملعون' فإن لم يضر لم يكره.....

(قوله وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما لقوله عليه الصلاة والسلام'من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس' وفي رواية 'فقد برئ من الله وبرئ الله منه'قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى 'فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا' الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي.....(قوله والمحتكر ملعون) أي مبعد عن درجة الأبرار، ولا يراد المعنى الثاني للعن وهوالإبعاد عن رحمة الله تعالى، لأنه لا يكون إلا في حق الكفار إذ العبد لا يخرج عن الإيمان بارتكاب الكبيرة كما في الكرماني، وأقره القهستاني در منتقى."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی البیع،398/6،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں