والد صاحب کا انتقال ستمبر 2021 کو ہوا تھا، ہم لوگ ایک بھائی اور تین بہنیں ہیں، والد صاحب کے انتقال کے بعد تمام اثاثے اور جائیداد بھائی کے استعمال میں ہیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ تقریباً چالیس (40) ایکڑ زرعی اراضی ہے، ایک دوکان، ایک گھر، کچھ گائے بیل اور بکریاں، ایک ٹریکٹر، زرعی آلات، ٹیوب ویل، تعمیر شدہ ڈیرہ، ایک کار اور کچھ دیگر سامان ہے۔ مذکورہ جائیداد میں سے والد صاحب کے نام پر تقریباً نو (9) ایکڑ زرعی اراضی، دوکان، گھر، ٹریکٹر اور کار وغیرہ ہیں۔ وفات سے کچھ سال پہلے والد صاحب نے اکتیس (31) ایکڑ زرعی اراضی اپنے ذاتی پیسوں سے خریدی تھی اور بیٹے کے نام پر ٹرانسفر کردی تھی، والد صاحب نے بیٹے کے نام تو کردی تھی لیکن والد صاحب کے قبضہ اور استعمال میں تھی، انتقال کے وقت بھی والد صاحب کے ہی قبضہ اور تصرف میں تھی، بیٹے کی نیت کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے وفات سے کافی پہلے سے ہی بیٹے سے یہ تقاضا کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ زرعی اراضی میرے نام پر ٹرانسفر کرے، لیکن وہ ٹال مٹول کرتا رہا اور والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ والد صاحب کے ترکہ میں کُل 40 ایکڑ زمین شمار ہوگی یا 9 ایکڑ ؟
واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں کسی کو کچھ دینا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے، اور ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا) موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جارہاہے) کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ قبضہ اور مالکانہ حقوق دیے بغیر کوئی چیز صرف نام کرنے / دوسرے کے نام ٹرانسفر کرنے سے شرعاً ہبہ (گفٹ)مکمل نہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں والد صاحب کے 31 ایکڑ زمین اپنے تصرف اور استعمال میں رکھ کر ، بیٹے کے محض نام کرنے سے بیٹے کی ملکیت میں نہیں آئی تھی، والد صاحب کی ملکیت ہی شمار ہوگی، والد مرحوم کے مطالبہ پر کہ یہ زمین دوبارہ میرے نام ٹرانسفر کردو، بیٹے کے ٹال مٹول کرنےاور ٹرانسفر ہونے سے پہلے والد کے انتقال کی وجہ سے بیٹا اس زمین کا مالک نہیں بنا تھا، بلکہ یہ زمین شروع سے ہی والد کی ملکیت تھی اور انتقال تک انہی کی ملکیت رہی، لہذا کُل 40 ایکڑ زمین والد صاحب کے ترکہ میں شامل ہوکر ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لايكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لايكون هبة."
(کتاب الهبة، ج:5، ص:689، ط: دار الفکر)
فتاوى ہندیہ میں ہے:
"ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضًا حتى لايثبت الملك للموهوب له قبل القبض."
(کتاب الهبة، ج:4، ص:374، ط: دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.
(قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت، ولو كانت في مرض الموت للأجنبي كما سبق في كتاب الوقف كذا في الهامش (قوله: بالقبض الكامل) وكل الموهوب له رجلين بقبض الدار فقبضاها جاز خانية."
(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101031
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن