بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

زمین کے ارد گرد خالی جگہوں سے فائدہ اٹھانے کاحق کس کو ہے؟


سوال

ایک آدمی کی نرینہ اولاد نہیں تھی، تو اس نے اپنی حیات ہی میں پنی بیٹیوں میں مالکانہ حقوق کے ساتھ اپنی جائیداد(زمین وغیرہ) تقسیم کرکے دیدی تھی، قبضہ وتصرف بھی بیٹیوں کو دے دیاتھا، اُن بیٹیوں کے شوہر ایسے ہیں کہ وہ اُس تقسیم شدہ زمین کے باشندے نہیں ہیں، بل کہ کسی اور علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ بیٹیاں اور اِن بیٹیوں کے شوہر اور بچے اِن زمینوں میں وہ تمام تصرفات کرسکتے ہیں جو اِن بیٹیوں کے والد کرتے تھے - یعنی اِن زمینوں کے ارد گرد جنگلات کی لکڑیاں، اور بنجر زمینوں کی گھاس اور وہاں کی چراگاہوں میں جانوروں كو  چرانا وغیرہ-    جب کہ وہ(اِن بیٹیوں کے شوہر اور بچے)  اس گاؤں کے باشندے نہیں ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ گاؤں کے ارد گرد جو غیر آباد زمینیں ہوتی ہیں، جہاں سے لوگ لکڑیاں اور گھاس وغیرہ لاتے ہیں، اوراسی طرح جانوروں کے چراگاہ کے طور پر اس کو استعمال کرتے ہیں،  عام طور پر یہ زمینیں کسی کی انفرادی ملکیت  نہیں ہوتیں، بل کہ  گاؤں کی آبادی کے وقت سے ہی یہ زمینیں  گاؤں کے باشندوں کے لیے  مذکورہ فوائد کے خاطر خالی چھوڑدی جاتی ہیں، اور گاؤں میں جس کی بھی زمین ہوتی ہے، وہ اِن خالی زمینوں سے فائدہ اٹھانے کے مستحق گردانے جاتے ہیں؛ صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ گاؤں میں بیٹیوں کی زمینیں ہیں، جوکہ اُن کے والد مرحوم نے اپنی حیات میں اُن کو دیدی ہیں؛لہذا اِن بیٹیوں کے لیے خود یا اپنی اولاد یا شوہر کے ذریعہ مذکورہ خالی زمینوں سے گھاس،لکڑیاں لانے اوروہاں کی  چراہ گاہوں میں جانوروں کے چرانے کاحق حاصل ہے۔ 

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الأراضي القريبة من العمران أي الخارجة عن العمران أو القريبة منه تترك للأهالي على أن تتخذ مرعى أو بيدرا أو محتطبا ولا يعد انتفاع الأهالي منقطعا عن تلك الأراضي."

(الكتاب العاشر: الشركات،‌‌الباب الرابع في بيان شركة الإباحة،الفصل الخامس في إحياء الموات،المادة :279/3،1271،ط:دار الجیل)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ما كان من مرافق أهل البلدة فهو حق أهل البلدة كفناء دارهم."

(كتاب الأراضي، ١٩٤/٦، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں