بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زمین کے ہبہ میں رجوع کا حکم


سوال

ہمارے دادا کو پڑوس گاؤں کے ایک آدمی نے زمین ہبہ کی تھی اور مکمل قبضہ و اختیار بھی دے دیا تھا،  میرے دادا اور ہبہ کرنے والے دونوں کا انتقال ہوچکا ہے، اب واہب کے پوتے کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ زمین ہماری تھی اور آپ کے ساتھ احسان کرکے ہبہ کی تھی، اب ہم احسان نہیں کر رہے، ہماری زمین ہمیں واپس کردیں، کیا ان کا مذکورہ زمین کی واپسی کا مطالبہ درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے دادا کو پڑوس والے گاؤں کے ایک آدمی نے جب زمین بطورِ ہبہ کے دے دی تھی اور اس پر مکمل قبضہ و تصرف بھی دے دیا تھا، تو ہبہ تام ہو گیا تھا، اور مذکورہ زمین کے مالک سائل کے دادا بن گئے تھے، اب جب کہ سائل کے دادا اور ہبہ کرنے والا دونوں انتقال کر چکے ہیں تو واہب کے پوتوں کے لیے مذکورہ زمین کی واپسی کا مطالبہ جائز  نہیں ہے، بلکہ مذکورہ زمین سائل کے دادا کی میراث شمار ہوگی اور سائل کے دادا کے تمام ورثاء (جو سائل کے دادا کے انتقال کے وقت موجود تھے) کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ومنها) ‌خروج ‌الموهوب عن ملك الموهوب له بأي سبب كان من البيع والهبة ونحوهما، وكذا بالموت؛ لأن الثابت للوارث غير ما كان ثابتا للمورث"

(الباب الخامس في الرجوع في الهبة، ج: 4، ص: 368، ط: دار الفكر بيروت)

تحفۃ الفقہاء میں ہے:

"و منها: ‌خروج ‌الموهوب عن ملك الموهوب له بأن باع أو وهب لأن اختلاف الملكين كاختلاف العينين، و كذا إذا مات الموهوب له لأن الملك ينتقل إلى ورثته، وكذا إذا مات الواهب لأنه ينتقل إلى ورثته."

(كتاب الهبة، ج: 3، ص: 168، ط: دار الكتب العلمية، بيروت۔ لبنان)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها ‌خروج ‌الموهوب من ملك الواهب بأي سبب كان من البيع والهبة والموت ونحوها لأن الملك يختلف بهذه الأشياء إما بالبيع والهبة ونحوهما فظاهر وكذا بالموت لأن الثابت للوارث غير ما كان ثابتا للمورث حقيقة لأن الملك عرض يتجدد في كل زمان"

(فصل في حكم الهبة، ج: 6، ص: 129، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں