میں مکانات کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہوں، اور بسا وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ مالک جائیداد سے ایگریمنٹ کر کے کچھ ایڈوانس رقم دے دیتا ہوں، اور وہ مجھے اس بات کی اجازت دے دیتا ہے کہ آپ جائیداد فروخت کر کے مجھے میری طے شدہ رقم دے دو،اور آپ کو فروختگی پر جو بھی نفع ہو ،تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ،یہ خرید و فروخت باہمی رضامندی سے ہوتی ہے ،شرعاً اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ اگر کوئی خرابی ہے، تو اس کا تدارک کیا ہے ؟
صورت مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ جائیداد کے مالک سے باقاعدہ ایجاب و قبول کر کے سودا طے کر کےمذکورہ جائیداد خود خریدی ہے اور بیعانہ بھی دے دیا ہے ،تو اب سائل کے لیے مذکورہ جائیداد کو آگے نفع پر فروخت کرنا شرعاً جائز ہے ،اور سائل کے لیے اس سے حاصل ہونے والا نفع شرعاً جائز ہے، کیونکہ مالکا نہ حقوق کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ ہو چکا ہے، اور بیعانہ کی ادائیگی بھی ہو چکی ہے، تو سائل اس کا مالک بن چکا ہے ،اور اس کی بقیہ قیمت سائل کے ذمہ دین بن چکی ہے، اس بنا پرسائل کے لیے اس کو نفع پر آگے فروخت کرنا جائز ہے ۔
البحر الرائق میں ہے :
"قوله صح بيع العقار قبل قبضه أي عند ابي حنيفه وابي يوسف وقال محمد لا يجوز لاطلاق الحديث وهو النهي ما لم يقبض."
(کتاب البیوع،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،ج:6،ص:126،ط:دار الكتاب الإسلامي)
شرح المجله للاتاسی میں ہے :
"للمشتري ان يبيع المبيع لاخر قبل قبضه ان كان عقارا."
باب الرابع،الفصل الاول، ج:2،ص:173)
بدائع الصنائع میں ہے:
"واما بيع المشتري العقار قبل القبض فجائز عنه عند ابي هنيفه وابي يوسف استحسانا."
(کتاب البیوع،فصل في شرائط الصحة في البيوع ،ج:5،ص:181،ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100209
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن