میں اپنی بیٹی کا نام" ذات الاید" رکھنا چاہتا ہوں ،یہ نام میں نے سورۃ ص کی آیت 17 کے لفظ ذا الاید سے اخذ کیا ہے،دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا یہ نام رکھنا درست ہے؟
واضح رہے کہ الأیدکا معنی لغت میں "قوت "اور "طاقت " کے ہیں ،اس اعتبار سے ذات الاید کا معنی "طاقت والی" ہے، لہذا یہ نام رکھنا جائز ہے،تاہم ناموں کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کیا جائے،اس سلسلے ہمارے ویب سائٹ پر اسلامی نام کے عنوان کے تحت اچھے ناموں کا ذخیرہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
لنک ملاحظہ ہو۔اسلامی نام/جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن https://www.banuri.edu.pk/islamic-name
لسان العرب میں ہے:
"أيد: الأيد والآد جميعا: القوة....وقوله عز وجل: واذكر عبدنا داود ذا الأيد؛ أي ذا القوة.....وتقول من الأيد: أيدته تأييدا أي قويته، والفاعل مؤيد وتصغيره مؤيد أيضا والمفعول مؤيد؛ وفي التنزيل العزيز: والسماء بنيناها بأيد."
(حرف الدال، فصل الهمزة، ج:3، ص:76، ط: دار صادر بيروت)
مجمع بحار الانوار میں ہے:
"الأيد" القوة رجل "أيد" بالتشديد أي قوى. ومنه خطبة علي: امسكها من أن تمور "بأيده" أي قوته."
(حرف الهمزة، "ايد"، ج:1، ص:123، ط: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408101448
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن