بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ذاتی استعمال کےلیےخریدےگئےپلاٹ میں نیت بدلنے سےزکاۃ کا حکم


سوال

اگرکسی نے 2018میں پلاٹ اس نیت سےخریدا کہ وہ اس پر اپنا گھربنائےگااور2023 تک اقساط بھی جمع کرواتارہا،لیکن بعدمیں ارادہ تبدیل کر دیاکہ اس پلاٹ کوفروخت کرکےکارلینی ہے،توکیاجب تک وہ پلاٹ فروخت نہیں ہوتا اس  (پلاٹ)  پر زکات فرض ہے؟

جواب

واضح رہےذاتی استعمال کی نیت سےخریدےگئےسامان میں زکات واجب نہیں ہے، نیزبعدمیں محض نیت بدلنےسےوہ تجارت کاسامان نہیں بن جاتاہے (جس پرزکات واجب ہو) بلکہ ضروری ہےکہ ایسےسامان کوتجارت کی نیت سےبیچ بھی دیاجائے، البتہ جوسامان تجارت کی نیت سےخریداگیاہو، اوربعدمیں مالک کی نیت بدل جائےتواس صورت میں زکات ساقط ہونے کے لیے محض نیت کابدلنا کافی ہے، عملی طورپراستعمال ضروری نہیں ہے۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائل نےجب2018میں مذکورہ پلاٹ باقاعدہ ایجاب وقبول کےساتھ گھربنانےکی نیت سےخریداہے،توذاتی ضرورت کے لیے خریدنے کی بناءپراس پلاٹ میں زکات واجب نہیں ہے، اب محض نیت بدلنےسےبھی اس پلاٹ میں زکات واجب نہ ہوگی، ہاں عملی طور پر جب مذکورہ پلاٹ بیچ کراس کی قیمت سےگاڑی تجارت کی نیت سےخریدی جائے،تواس گاڑی میں زکات واجب ہوگی،لیکن اگرگاڑی اپنی ذاتی استعمال کےلیےخریدی گئی ہوتواس میں بھی زکات واجب نہ ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين ‌وتعتبر ‌القيمة ‌عند ‌حولان ‌الحول".

(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة، الفصل الثاني في العروض، ج:1، ص:179، ط:المطبعة الكبري الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا في ثياب البدن)....(وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها)."

(كتاب الزكاةفي بدايته، ج:2، ص:265، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"(لا يبقى للتجارة ما) أي عبد مثلا (اشتراه لها فنوى) بعد ذلك (خدمته ثم) ما نواه للخدمة (لا يصير للتجارة) وإن نواه لها ما لم يبعه بجنس ما فيه الزكاة. والفرق أن التجارة عمل فلا تتم بمجرد النية؛ بخلاف الأول فإنه ترك العمل فيتم بها...(قوله: فنوى بعد ذلك خدمته) أي، وأن لا يبقى للتجارة...(قوله: والفرق) أي بين التجارة حيث لا تتحقق بالفعل وبين عدمها. بأن نواه للخدمة حيث تحقق بمجرد النية ط (قوله فيتم بها) لأن التروك كلها يكتفى فيها بالنية."

(كتاب الزكاة في بدايته، ج:2، ص:272، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604102830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں