بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

زوال کےوقت نماز نہ پڑھنے کی حکمت


سوال

وقتِ زوال میں نماز کی ادائیگی کی ممانعت کیوں کی گئی ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ اوقاتِ ممنوعہ  میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی اصل وجہ تو یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے،لہٰذا جب حدیثِ شریف میں ان اوقات میں نماز کی ممانعت ہے تو مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز ادا نہ کرے، خواہ اس کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ ہو، یا حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے،تاہم مقاصدِ شریعت سے بحث کرنے والے محققین علمائے کرام نے اَحکامِ شرع کی حکمتیں اور مصالح اور عقلی توجیہات بھی پیش کی ہیں، جن میں سے بعض احادیثِ مبارکہ میں صراحتاً مذکور ہیں، اور بعض کی طرف نصوص میں اشارہ موجود ہے۔

زوال کے وقت   نماز نہ پڑھنے  کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین ومجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔(حجۃ اللہ البالغۃ (33/2)

مزید یہ کہ زوال کے وقت شیطان بھی سورج کے قریب ہو جاتا ہے اور  بزعمِ خود اپنے آپ کے معبود اور مسجود ہونے پر خوش ہوتا ہے۔

حجۃ اللہ البالغۃ  میں ہے:

"ثم الصلاة خير موضوع فمن استطاع أن يستكثر منها فليفعل غير أنه نهى عن خمسة أوقات: ثلاثة منها أوكد نهيا عن الباقيين، وحتى الساعات الثلاث إذا طلعت الشمس بازغة حتى ترتفع، وحين يقوم قائم الظهيرة حتى تميل، وحين تتضيف للغروب حتى تغرب، لأنها أوقات صلاة ‌المجوس، وهم قوم حرفوا الدين جعلوا يعبدون الشمس من دون الله، واستحوذ عليهم الشيطان، وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم: " فإنها تطلع حين تطلع بين قرني الشيطان " وحينئذ يسجد لها الكفار، فوجب أن يميز ملة الإسلام وملة الكفر في أعظم الطاعات من جهة الوقت أيضا."

(النوافل، 33/2، ط: دار الجيل، بيروت - لبنان)

بدائع الصانع میں ہے:

"وروى الصنابحي أن النبي صلى الله عليه وسلم «نهى عن الصلاة عند طلوع الشمس، وقال: إنها تطلع بين قرني شيطان يزينها في عين من يعبدها حتى يسجد لها فإذا ارتفعت فارقها، فإذا كانت عند قائم الظهيرة قارنها، فإذا مالت فارقها، فإذا دنت للغروب قارنها، فإذا غربت فارقها فلا تصلوا في هذه الأوقات» فالنبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الصلاة في هذه الأوقات من غير فصل فهو على العموم والإطلاق، ونبه على معنى النهي، وهو طلوع الشمس بين قرني الشيطان وذلك؛ لأن عبدة الشمس يعبدون الشمس، ويسجدون لها عند الطلوع تحية لها، وعند الزوال لاستتمام علوها، وعند الغروب وداعا لها فيجيء الشيطان فيجعل الشمس بين قرنيه ليقع سجودهم نحو الشمس له، فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة في هذه الأوقات لئلا يقع التشبيه بعبدة الشمس."

(كتاب الصلاة، فصل صلاة التطوع، فصل بيان ما يكره من التطوع، 296/1، ط: دار الكتب العلمية) 

احکام اسلام عقل کی نظر میں ہے:

"غروب و طلوع و استواء آفتاب کے وقت منع نماز کی وجہ:

اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں اس لیےخدا نے ان کے ساتھ تشبیہ اختیار کرنے سے منع فرمایا اور ضروری ہوا کہ اس عبادت کے اندر جو کہ سب عبادتوں میں بڑی ہے وقت کے اعتبار سے بھی ملت اسلام اور کفر میں تمیز اور فرق کیا جاوے۔"

(باب صفۃ الصلوٰۃ، ص: 77، ط: مکتبۃ عمر فاروق) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں