بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زوجین کی طویل علیحدگی کے بعد نکاح کا حکم


سوال

میری بہو کاتین سال پہلے میرےبیٹے کےساتھ جھگڑاہوا،اوروہ ناراض ہوکراپنے میکے چلی گئی ،ہم جرگہ لےکراس کےپاس گئے؛تاکہ وہ آجائے،مگروہ نہ آئی ،اورتین سالوں سےوہ اپنےمیکے میں رہ رہی ہے،اوراس نےعدالت میں (خلع کا)کیس کیاہواہے،لیکن  اب تک عدالت کی طرف کوئی فیصلہ نہیں ہواہے،اب  پوچھنایہ ہے کہ (1)کیااس کوطلاق ہوئی ہے یانہیں؟ جب کہ میرےبیٹےنےاس کوطلاق نہیں دی نہ زبانی اورنہ ہی تحریری طورپر،(2)اورتین سال پہلے وہ اپنےبچوں کواپنے ساتھ نہیں لےجارہی تھی اوراب بچےمانگ رہی ہے،تو اس کاکیاحکم ہے؟بچوں میں ایک چارسال کالڑکااورچھ سال کی لڑکی ہے۔

جواب

(1)صورتِ مسئولہ میں سائل کےبیٹےنےاگرواقعتاًاپنی بیوی  یعنی سائل کی بہوکوزبانی یاتحریری طورپر طلاق نہیں دی ،تو محض طویل عرصہ شوہرسےعلیحدہ رہنے کی وجہ سےدونوں کانکاح ختم نہیں ہوابلکہ بدستوربرقرارہے،باقی سائل کی بہونے عدالت میں جوخلع لینے کاکیس کیاہے  ،اس کاشرعی حکم عدالت کافیصلہ سامنےآنےاوراس کاشرعی جائزہ لینےکے بعدہی  بتایا جاسکتا ہے۔

(2)اگرمیاں بیوی کےدرمیان علیحدگی ہوجائے،تو بچوں کی پرورش کےمتعلق شریعت مطہرہ کااصول یہ  ہے کہ اگر اولاد میں بیٹے ہوں تو سات  سال کی عمر تک اوراگر بیٹیاں ہوں، تو نو سال کی عمر تک ان کی پرورش کا حق ماں کے پاس رہے گا۔مقررہ مدت کے بعد ماں کا یہ حق ساقط ہو جائے گا ،اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والد کے سپرد ہوگی۔

صورت ِمسئولہ میں چونکہ بچےکی عمرچارسال اوربچی کی عمرچھ سال ہے،لہٰذاان دونوں کی پرورش کاحق ماں کو ہے، اوربچوں کی پرورش اورتعلیم کےاخراجات والدکےذمہ ہوں گے،جب بچہ سات سال کاہوجائے اوربچی نوسال کی ہوجائے تواس کےبعد باپ انہیں اپنی  میں تحویل میں لےسکےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية . وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:230،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن الطلاق هو اللفظ الذي جعل دلالة على معنى الطلاق لغة وهو التخلية والإرسال ورفع القيد في الصريح وقطع الوصلة ونحوه في الكناية."

(کتاب الطلاق،فصل في بيان ركن الطلاق ،ج:3،ص:98،ط:دار الكتب العلمية)

الدرالمختارمیں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا.وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى."

(کتاب الطلاق،باب الحضانة،ج:3،ص:566،ط:سعید)

وفیہ أیضاً:

"(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية."

(کتاب الطلاق،باب الحضانة،ج:3،ص:567،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."

(کتاب الطلاق،‌‌الباب السادس عشر في الحضانة،ج:1،ص:543،ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144609101848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں