ایک حدیث میں ہے کہ پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پینا چاہیے،جبکہ مشہور ہے کہ تین سانس میں پینا سنت ہے، تو اگر پانی زیادہ ہو تو گھونٹ گھونٹ کر پینا سنت ہے یا تین سانس میں پینا سنت ہے؟
احادیث مبارکہ میں پانی پینے کے مختلف آداب ذکر کئے گئے ہیں ،ان میں سے ایک ادب یہ ہے کہ ایک سانس میں سارا پانی نہ پیاجائے گھونٹ گھونٹ کر پانی پیا جائے، گھونٹ گھونٹ کرکے پانی پینے کا مطلب شراح حدیث نے دیگر آحادیث کی روشنی میں یہی بیان فرمایا ہے کہ ایک سانس میں سارا پانی نہ پیا جائے ،بلکہ تین سانس میں پانی پیا جائے،لہذا تین سانس میں پانی پینے اور گھونٹ گھونٹ کر پانی پینے کے حکم میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
نیز اگر کبھی پیاس زیادہ لگی ہو اور کئ گلاس پانی پینے کی ضرورت پیش آجائےتو اس صورت میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ہرگلاس کو تین سانس میں پی لیا جائے،اس لئے کہ حدیث مبارک میں ایک مرتبہ کے پانی کو تین سانس میں پینے کا حکم ہے ،زیادہ پانی پینے کی صورت میں کئی گلاس پیے جائیں گے اور ہر گلاس کے درمیان کچھ فاصلہ ہوگاتو کئی گلاس یہ کئی مرتبہ کا پانی پینا سمجھا جائے گا ،لہذا ہر مرتبہ تین سانس میں پانی کو پی لیا جائے۔
وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:
"(قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «إذا شرب أحدكم فلا يتنفس» ) : بالجزم ولا ناهية في الثلاثة وروي بالضم فيها على أن لا نافية كذا قاله الشيخ نقله الأبهري، والمعنى لا يخرج نفسه (في الإناء) : أي في داخله، قال الطيبي: ولعل علة النهي تغير ما في الإناء اهـ. يعني لئلا يقل برودة الماء الكاسرة للعطش بحرارة النفس أو كراهة أن ينحدر قذرة من نفسه، بل إذا أراد التنفس فليرفع فمه عن الإناء فيتنفس ثم يشرب وقد ورد: " «مصوا الماء مصا ولا تعبوه عبا» ". رواه البيهقي عن أنس، وفي النهاية العب: الشرب بلا تنفس، وقال البيضاوي: الشرب بثلاث دفعات أقمع للعطش وأقوى على الهضم وأقل أثرا في برد المعدة وإضعاف الأعصاب، وفي الشمائل للترمذي «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يتنفس في الإناء ثلاثا إذا شرب ويقول: هو أمرأ وأروى» ، ومعنى الحديث أن يشرب ثلاث مرات في كل ذلك يبين الإناء عن فيه فيتنفس ثم يعود والمنهي عنه هو التنفس في الإناء بلا إبانة أو بلا تنفس، فإنه يدل على الشره والحرص والغفلة، ولذا ورد: «لا تشربوا واحدا كشرب البعير، ولكن اشربوا مثنى وثلاث» ، وورد بسند حسن «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يشرب في ثلاثة أنفاس إذا أدنى الإناء إلى فيه سمى الله، وإذا أخره حمد الله يفعل ذلك ثلاثا» أي غالبا، إذ جاء في رواية أنه كان إذا شرب تنفس مرتين، وفي رواية البخاري مرة أو مرتين، وأو للتنويع لأنه إن روي بنفسين واكتفي بهما وإلا فبثلاث."
(کتاب الطہارۃ،باب آداب الخلاء،1/ 377،الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان)
امداد الفتاوی میں ہے:
’’سوال:اگر کسی شخص کو اس شدت سے تشنگی ہے کہ وہ تین یا چار گلاس پانی پیوے گا تو اس شخص کو ہر گلاس کے پانی کو تین سانس میں پینا چاہیے یاوہی تین یا چار گلاس جو ٹھیر ٹھیر کر بھر کر پیوے گا تین سانس کا حکم میں سمجھے جاویں گے؟
جواب:ہر گلاس کو تین سانس میں پیوے کیونکہ ممکن ہے کہ دوسرا تیسرا گلاس کچھ فصل سے پیوے تو وہ مجموعی کئی بار کا پینا ہوگا اور سانس لینا ایک بار کے پینے میں ہے۔‘‘
(ج:4،ص:103،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100338
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن