میرے والد صاحب نے مجھ پر زبردستی کر کے مجھ سے طلاق نامہ پر دستخط کروائے ،اور اس میں میری طرف سے میری بیوی کو تین طلاقیں دی گئی تھیں، اور ان طلاقوں کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ اس پر دستخط کروا کر مجھ سے طلاق دلوا رہے ہیں، تو میں نے اپنی مرضی کے بغیر والد کی طرف سے زبردستی کی وجہ سے اس پر دستخط کر دیے، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مجھ سے انگوٹھا لگوانے سے طلاق ہوئی ہے یا نہیں۔
وضاحت اس مسئلے کے بارے میں والد اور بیٹے دونوں کو دارلافتاء بلایا گیا، جس میں بیٹے نے یہ بیان دیا کہ میرے والد نے مجھ سے اس طرح زبردستی انگوٹھا لگوایا کہ وہ تین آدمی میرے ہاتھ کو پکڑے ہوئے تھے ،میں نے اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی لیکن میں اس پر قادر نہیں ہو سکا تو انہوں نے زبردستی انگوٹھا لگوا دیا طاقت کے بل بوتے، اور والد نے یہ بیان دیا کہ یہ سب کام میں نے کروایا زبردستی اور طاقت کے بل بوتے اپنے والد یعنی سائل کے دادا کے کہنے پر انہوں نے خود اس بات کا اقرار اور اعتراف کیا ہے۔
واضح رہے کہ کسی طلاق نامہ پر زبردستی مجبور کر کے دستخط کرانے یا انگوٹھا لگوانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، زبردستی اور جبر سے مراد "اکراہ شرعی "ہے ،یعنی طلاق لکھوانے یا طلاق نامے پر دستخط کروانے والے کو جان سے مارنے کی دھمکی دے یا ایسا تشدد کرے جس سے عضو کے تلف ہو جانے یا پھر اس طرح زبردستی کرے کہ جان چھڑانے کی قدرت نہ رہے،تو اگر ایسی حالت میں مجبور شخص طلاق نامہ پر دستخط کر دےیا طلاق نامہ لکھوا دے، لیکن زبان سے طلاق نہ دے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے مطابق اس پر اس کے والد نے دیگر آدمیوں کے ساتھ مل کر زبردستی ہاتھ پکڑ کر طلاق نامہ پر انگوٹھا لگوایا ،اور دستخط کروانے کی کوشش بھی کی کہ سائل ہاتھ چھڑانے پر قادر نہیں تھا، اور یہ کام کروانے والے سائل کے والد نے بھی اس زبردستی کی تصدیق کی کہ واقعی انہوں نے اپنے والد( یعنی سائل کے دادا )کے سخت دباؤ میں آ کر ایسا کیا ہے،جیسا کہ سوال نامہ میں سائل اور اس کے والد کے بیان میں مذکور ہے، اور سائل نے زبان سے الفاظ طلاق ادانہیں کیے، تو اس طلاق نامہ سےسائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،بیوی بدستور سائل کے نکاح میں ہے اور دونوں کا نکاح برقرار ہے۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"الإكراه هو لغة حمل الإنسان على شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام."
(کتاب الاکراہ،ج:6،ص:128،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا ."
(کتاب الطلاق،مطلب في المسائل التي تصح مع الإكراه،ج:3،ص:236،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100896
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن