ایک شخص جو ذہنی بیماری میں مبتلا ہے جب اس کو بیماری لاحق ہوتی ہے تو دماغ کام نہیں کرتا اور اپنے الفاظ پر اس کو کنٹرول نہیں ہوتا، نہ ہو اس کو سمجھ آتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے، اس کے پاس میڈیکل رپورٹ بھی ہے اور وہ دوا بھی استعمال کرتا ہے، اس بات کی گواہی اس کی بیوی اور سسرال والے بھی دیتے ہیں۔
اس بیماری کی حالت میں اگر وہ طلاق دیتا ہے تو طلاق کا کیا حکم ہے ؟ اس حال میں طلاق واقع ہوتی ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا ذہنی مرض اگر اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ مرض لاحق ہونے کے وقت اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، اس کی عقل میں ایسا خلل واقع ہو جاتا ہے کہ اس سے اس کی عام عادت کے خلاف اقوال و افعال سرزد ہوتے ہیں ، تو ایسی حالت میں طلاق دینے کا اعتبار نہیں ہے۔
اگر ذہنی بیماری اس حد تک نہ ہو اوراس کے افعال و اقوال میں خلل واقع نہ ہوتا ہو تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.
الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اهـ...
فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل... وإلا أن يجاب بأن المراد بكونه لا يدري ما يقول أنه لقوة غضبه قد ينسى ما يقول ولا يتذكره بعد، وليس المراد أنه صار يجري على لسانه ما لا يفهمه أو لا يقصده إذ لا شك أنه حينئذ يكون في أعلى مراتب الجنون".
(کتاب الطلاق، مطلب في طلاق المدهوش، 3/ 243، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102490
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن