کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنے ایک ایسے بیٹے کی شادی کرادی جو دماغ کے اعتبار سے کچھ کمزور تھا ، لڑکی بھی دماغ کے اعتبار سے کمزور تھی ، نکاح ہونے کے بعد دونوں کا ایک بیٹا پیدا ہوا، پھر کچھ عرصہ بعد لڑکا دماغی توازن کھو بیٹھا، گزشتہ ڈھائی سال سے اس کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو بھی نہیں پہچانتا ہے، پیشاب پاخانہ سب بستر میں کرتا ہے، اور جسمانی اعضاء کے اعتبار سے بھی معذور ہوچکا ہے، ڈاکٹروں نے اسے لا علاج قرار دے دیا ہے۔
دوسری طرف سے اُس کی بیوی نے بیماری کے اس عرصہ میں ایک دن بھی اس کی خدمت نہیں کی اور نہ اس کے کمرے میں گئی، بلکہ لڑکے کی ماں اس کو سنبھالتی ہے، اس کے علاوہ لڑکی بار بار جھگڑے کرتی رہی ، جس کی وجہ سے گھر میں اس کے ساتھ گزارہ مشکل ہو گیا، تو لڑکے کے والد نے مجبور ہوکر بہو کو اس کے میکے بھیج دیا، اب لڑکی کا والد لڑکے کے والد سے طلاق کا مطالبہ کررہا ہے، تو کیا اس لڑکی کو طلاق ہو سکتی ہے؟اور طلاق دینے کی کیا صورت ہوگی؟
صورت مسئولہ میں اگر سائل کا بیان حقائق پر مبنی ہے کہ مذکورہ خاتون کا شوہر دماغی توازن اس حد تک کھو بیٹھا ہے کہ اپنے ماں باپ کو پہچاننے سے بھی قاصر ہے، قضائے حاجت کی بھی تمیز باقی نہیں رہی ہے، جسمانی طور پر بھی حقوق زوجیت ادا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے، یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے بھی اسے لا علاج قرار دے دیا ہے، تو اس صورت میں مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ عدالت حاضر ہو کر مذکورہ شخص سے اپنا نکاح ثابت کرنے کے بعد اس کے مجنون ہونے اور جسمانی طور پر معذور ہونے کو گواہوں سے ثابت کرکے عدالت سے نکاح فسخ کرنے کا مطالبہ کرے، جس کے بعد عدالت مذکورہ خاتون کے شوہر کے حوالے سے تحقیق کروانے کے بعد ایک سال مزید علاج کی مہلت دے، پس اگر ایک سال کے علاج سے بھی مذکورہ شخص ٹھیک نہ ہو، تو عدالت نکاح منسوخ کرنے کی شرعًا مجاز ہوگی، نیز اگر ابتدائی تحقیق سے مذکورہ شخص کا لاعلاج ہونا ثابت ہوجائے، تو اس صورت میں اگر عدالت فوری طور پر نکاح فسخ کرنا مناسب سمجھے تو ایک سال مزید علاج کی مہلت دیے بغیر نکاح فسخ کرسکتی ہے۔
کفایت المفتی میں ہے:
ذہنی بیمار مثل پاگل بیوی کو طلاق کس طرح دےگا ؟
فصل ہشتم:زوج کا مخبوط الحواس یا مجنون ہونا
پاگل کی بیوی کیا کرے؟
(سوال) میرا شوہر بعارضہ صرع مدت سے بیمار ہے عرصہ ہفت سال علاج کیا گیا مگر آرام نہ ہوا اب دس ماہ سے مجنون ہوکر گھر سے نکل گیا ہے ڈاکٹر اور حکیم اس کو لا علاج بتارہے ہیں میرے چھوٹے کمسن بچے ہیں بوجہ افلاس تنگ آگئی ہوں عمر کے لحاظ سے جوان ہوں -
(جواب ۱۴۶) خاوند کے مجنون ہوجانے کی صورت میں حضرت امام محمد ؒ کے قول کے موافق ضرورتِ شدیدہ میں حاکم مجاز کو نکاح فسخ کردینے کی گنجائش ہے، لیکن حاکم مجاز سے حکم فسخ حاصل کرنے سے قبل دوسرا نکاح کرلینا جائز نہیں - محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ ‘
شادی کے بعد شوہر دیوانہ ہوگیا،تو بیوی ایک سال کی مہلت کے بعد تفریق کراسکتی ہے ؟
(سوال) ایک شخص بصحت عقل و تندرستی بدن تقریبا ً تین چار برس اپنی منکوحہ کے ساتھ بسر کرتا رہا چنانچہ اسی زوجہ سے اس کا ہفت سالہ لڑکا بھی ہے پھر وہ شخص مجنو ن ہوگیا اور چھ برس سے مجنون ہے اس کے ورثا نے باقاعدہ اس کا علاج بھی نہیں کرایا عورت جوان ہے اور زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے کسی صورت سے اس کا نکاح فسخ ہوسکتا ہے یا نہیں؟
(جواب ۱۴۷) حضرت امام محمد ؒ کے قول کے بموجب شوہر کے مجنون ہوجانے کی صورت میں نکاح فسخ ہوسکتا ہے، مگر فسخ کے لیے حاکم مجاز کے فیصلہ کی ضرورت ہے، وہ جنون حادث میں ایک سال کی مہلت بغرضِ علاج دے کر سال بھر کے بعد اگر جنون زائل نہ ہو تو عورت کے طلب پر نکاح فسخ کرسکتا ہے ، (یعنی ثالث مسلم فریقین) کو بھی حاصل ہوتا ہے، لیکن حاکم یا حکم کے فیصلہ کے بغیر نکاح فسخ نہیں ہوسکتا ۔ محمد کفایت اللہ غفرلہ‘ مدرسہ امینیہ ‘ دہلی
شوہر کو جنون ہو، تو اس کی بیوی کو تفریق کا حق حاصل ہے یا نہیں؟
(سوال) ایک شخص نوجوان ضلع جلپائی گوڑی کا باشندہ تقریباً ڈیڑھ سال سے مرض جنون میں مبتلا ہے ناداری کی وجہ سے کسی اچھے حکیم یا ڈاکٹر یا وید سے علاج کرانے کا اتفاق نہیں ہوا نہ سرکاری پاگل خانے میں بھیجا گیا جس سے مرض کے اچھے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا شخص مذکور کی بیوی نوجوانی اور مفلسی سے تنگ آکر مستفتی ہوئی کہ نکاح ثانی درست ہے یا نہیں بعض علماء نے بمجرد پاگل ہونے اس کے شوہر کے نکاح سابق کو فسخ قرار دیکر نکاح ثانی کا فتویٰ دیدیا اور نکاح کر بھی دیا دوسرے علماء نے تا تحقیق عدم استرداد صحت‘ عدم جواز کا فتویٰ دیا اب دو جماعت ہوگئی ہے اور نا اتفاقی کی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے یہ نکاح درست ہے یا نہیں ؟ اور عدم جواز نکاح کی صورت میں زانی اور زانیہ کو توبہ کے ساتھ ساتھ کیا کفارہ ادا کرنا چاہیے؟
(جواب ۱۴۸) جب کہ ڈیڑھ سال سے زوج جنون میں مبتلا ہے اور اس مدت میں افاقہ نہ ہوا تو بغیر مزید انتظار کے امام محمد ؒ کے قول کے بموجب تفریق جائز ہے ، مگر حکم تفریق کے لیے حاکم بااختیار یا حَکَم کا فیصلہ ضروری ہے، نیز حکم تفریق کے بعد عدت بھی گزارنی ہوگی (اگر عورت مدخول بہا تھی)، یہ مراتب پورے کرلیے گئے تو نکاح ثانی درست ہوا ،ورنہ ناجائز ہونے کی صورت میں تفریق یا تجدید ضروری ہے، اور گزشتہ کی تلافی کے لیے صرف توبہ کافی ہے، کوئی کفارہ لازم نہیں ۔ محمد کفایت اللہ غفر لہ
(کفایت المفتی، کتاب الطلاق،۶ / ۱۴۷، ط:دارالاشاعت)
حضرت حکیم الامت علامہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ مجنون کی بیوی کے حق تنسیخ نکاح کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
"زوجہ مجنون کے لیے خیار فسخ کا بیان:
الجواب:(۱) جنون کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ عقد نکاح کے وقت جنون موجود ہو اور بے خبری میں نکاح ہو جائے ، دوسری یہ کہ عقد کے وقت جنون نہیں تھا مگر نکاح کے بعد لاحق ہوگیا ، خواہ ہم بستری سے پہلے ہو گیاہو،یا بعد میں ۔
ان دونوں صورتوں میں تفریق کا اختیار عورت کو ان شرائط کے ساتھ حاصل ہو جاتا ہے جو جواب نمبر دو میں ابھی آتی ہیں، مگر پہلی صورت یعنی موجود وقت العقد میں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی اختیار ہے اور مالکیہ کے نزدیک بھی اور دوسرے صورت یعنی حادث بعد العقد میں صرف مالکیہ کے نزدیک اختیار ہے، اس لیے دوسری صورت میں بغیر ضرورت ِ شدیدہ کے نکاح فسخ نہ کیا جائے۔
دعوی اور تفریق کی صورت:
(۲) تفریق کی صورت یہ ہے کہ مجنون کی عورت قاضی کی عدالت میں درخواست دے اور خاوند کا خطرناک جنون ثابت کرے قاضی واقعہ کی تحقیق کرے اگر صحیح ثابت ہو تو مجنون کو علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دے دے اور بعد اختتام سال اگر زوجہ پھر درخواست کرے اور شوہر کامرض جنون ہنوز اب تک موجود ہو تو عورت کو اختیار دے دیا جائے اس پر اگر عورت اسی مجلس میں فرقتِ طلب کر لے جس میں اس کواختیار دیا گیا ہے، تو قاضی تفریق کر دے اور یہ تفریق اگر اس جنون کی وجہ سے کی گئی ہے جو عقد نکاح کے وقت موجود تھا تب تو طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے، اگر حادث بعد العقد کی وجہ سے کی گئی ہے، تو اس میں طلاق ہونے کا احتمال ہے ، علمائے مالکیہ سے تحقیق کیجئے اور جب تک تحقیق نہ ہو اس وقت تک طلاق قرار دینا چاہیے کہ اس میں احتیاط ہے۔
تفریق کی شرط
اور زوجہ مجنون کو خیار فسخ حاصل ہونے کے لیے مند جہ ذیل شرطیں ہیں، اگر یہ شرطیں نہ پائی جائیں تو تفریق کا حق نہیں اس لیے ان کو غور سے سمجھ لینا چاہیے۔
(الف) ایک شرط یہ ہے کہ عورت کی طرف سے رضامندی نہ پائی جائے بس اگر نکاح سے پہلے جنون کا پتا تھا، اور اس کے باوجود نکاح کیا گیا ، تو خیار فسخ حاصل نہیں ہوتا اور اگر نکاح کے بعد جنون ہوا ہو تو یہ شرط ہے کہ جنون کی خبر ہونے کے بعد اس کے نکاح میں رہنے پر رضامندی ظاہر نہ کی ہو ، اگر ایک مرتبہ بھی رضامندی ظاہر کر چکی ہو، توخیار فسخ باطل ہو گیا۔
(ب) دوسری شرط یہ ہے، کہ جنون کا پتہ لگنے کے بعد اپنے اختیار سے عورت نے جماع یا دواعی جماع کا موقع نہ دیا ہو، البتہ اگر مجنون نےبجبر ِو اکراہ ہم بستری وغیرہ کر لی ،تو اس سے خیار ساقط نہیں ہوتا۔
(فائدہ)ہر دو شرط اگر رضامندی کا اظہار یا جماع وغیرہ کا موقع دینا ایسے جنون کے بعد پایا جائے جو موجب اختیار ہے تب تو خیار نہ رہے گا لیکن اگر معمولی جنون کی حالت میں نکاح کر لیا یا معمولی جنون پر نکاح میں رہنے کو منظور کر لیا تھا یا ہم بستری وغیرہ کا موقع دیا تھا اور بعد میں جنون بڑھ گیا تو اس رضا و تمکین سے خیار و فسخ ساقط نہ ہوگا ، مگر اس گنجائش سے نفع حاصل کرنے میں کامل دیانت اور سخت احتیاط سے کام لینا لازم ہے۔
(ج) زوجہ عنین کی طرح زوجہ مجنون بھی اپنے خاوند سے علیحدہ ہونے میں خود مختار نہیں، بلکہ قضائے قاضی شرط ہے اور جس علاقے میں قاضی موجود نہ ہو، مسلمان حاکم سے استغاثہ کیا جائے، بشرطِ یہ کہ اس حکومت کی طرف سے ایسے معاملات کے تصفیہ کا حق دیا گیا ہو اور شرعی طریق پر فیصلہ کرتا ہو ورنہ جماعتِ مسلمین سے درخواست کی جائے جس کی شرطیں مقدمہ میں گزر چکی ہیں ان کو ضرور دیکھ لیں۔
(د) جب کہ مہلت کا سال گزر جانے کے بعد دوبارہ درخواست پر قاضی عورت کو اختیار دے تو عورت کو فرقت کا اختیار اسی مجلس تک رہتا ہے اگر مجلس برخاست ہو گئی ،یا عورت از خود اٹھ گئی یا کسی کے اٹھانے سے اٹھ گئی یا اور کسی طرح مجلس بدل گئی تو خیار فسخ باطل ہو گیا ۔۔۔۔
شرائط نہ ہونے پر زوجہ مجنون کے لیے ایک گنجائش:
(فائدہ) ۔۔۔زوجہ مجنون کا نکاح فسخ ہونے کے لیے جو شرائط اوپر مذکور ہوئیں اگر کسی جگہ وہ شرائط موجود نہ ہوں تو جنون کی وجہ سے تفریق نہیں ہوسکتی، لیکن اگر یہ مجنون آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رکھتا ہو،اور نہ اس کو کسب معاش پر قدرت ہو، اور زوجہ کے لیے نفقے کی کوئی دوسری سبیل بھی نہیں ، توایسی صورت میں مفتی کے لیے عورت کی اضطرار کی پوری تحقیق ہوجانے اور چند علماء سے مشورے کے بعد اس فتوی کی بھی گنجائش ہےکہ مذہب مالکیہ کی بناء پر عدم نفقہ کی وجہ سے قاضی یا اس کا قائم مقام ان دونوں میں تفریق کردے ،اور یہ تفریق طلاق رجعی کے حکم میں ہوگی،لیکن اس میں کامل تدبر سے کام لے کر مذہب مالکیہ کی تمام شرائط کی پابندی ضروری ہے ،جن میں سے ایک شرط یہ بھی ہے، کہ عدم ِنفقہ کی وجہ سے فسخ نکاح اس وقت ہو سکتا ہے، جب کہ عقد نکاح سے پہلے اس کو خاوند کے فقیر و نادار ہونے کا علم نہ ہو، ورنہ اگر ناداری کا علم ہوتے ہوئے عقد نکاح کیا گیا ہے، تو اب بوجہ عدم نفقہ کے بھی اس کو مطالبہ تفریق کا حق نہ ہوگا ،اور باقی شرائط اس مسئلہ کی بوقت ضرورت کتبِ مالکیہ کی مراجعت سے معلوم ہوسکتی ہیں۔۔۔۔"
(حیلہ ناجزہ یعنی عورتوں کا حق ِ تنسیخ ِ نکاح، ص: ۱۷۷ تا ۱۷۹، ط: دارالاشاعت)
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأما خلو الزوج عما سوى هذه العيوب الخمسة من الجب، والعنة والتأخذ والخصاء والخنوثة، فهل هو شرط لزوم النكاح؟ قال أبو حنيفة، وأبو يوسف ليس بشرط، ولا يفسخ النكاح به.وقال محمد: خلوه من كل عيب لا يمكنها المقام معه إلا بضرر كالجنون والجذام والبرص، شرط لزوم النكاح حتى يفسخ به النكاح، وخلوه عما سوى ذلك ليس بشرط، وهو مذهب الشافعي.(وجه) قول محمد أن الخيار في العيوب الخمسة إنما ثبت لدفع الضرر عن المرأة وهذه العيوب في إلحاق الضرر بها فوق تلك؛ لأنها من الأدواء المتعدية عادة، فلما ثبت الخيار بتلك، فلأن يثبت بهذه أولى بخلاف ما إذا كانت هذه العيوب في جانب المرأة؛ لأن الزوج، وإن كان يتضرر بها لكن يمكنه دفع الضرر عن نفسه بالطلاق، فإن الطلاق بيده، والمرأة لا يمكنها ذلك؛ لأنها لا تملك الطلاق، فتعين الفسخ طريقا لدفع الضرر، ولهما أن الخيار في تلك العيوب ثبت لدفع ضرر فوات حقها المستحق بالعقد، وهو الوطء مرة واحدة، وهذا الحق لم يفت بهذه العيوب؛ لأن الوطء يتحقق من الزوج مع هذه العيوب، فلا يثبت الخيار هذا في جانب الزوج."
(كتاب النكاح، فصل شروط لزوم النكاح، ٢ / ٣٢٧، ط: دارالكتب العلمية)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"بخلاف ما لو كان أحدهما مجنونا فإنه لا يؤخر إلى عقله في الجب والعنة لعدم الفائدة.ويفرق بينهما للحال في الجب وبعد التأجيل في العنين؛ لأن الجنون لا يعدم الشهوة، بخصومة ولي إن كان وإلا فمن ينصبه القاضي.
وتحته فی منحة الخالق وتكملة الطوري
(قوله: وبعد التأجيل في العنين؛ لأن الجنون إلخ) قال في البدائع وإن كان الزوج كبيرا مجنونا فوجدته عنينا قالوا إنه لا يؤجل كذا ذكر الكرخي؛ لأن التأجيل للتفريق عند عدم الدخول وفرقة العنين طلاق والمجنون لا يملك الطلاق وذكر القاضي في شرح مختصر الطحاوي أنه ينتظر حولا ولا ينتظر إلى إفاقته بخلاف الصبي؛ لأن الصغر مانع من الوصول فيتأتى إلى أن يزول الصغر ثم يؤجل سنة فأما الجنون فلا يمنع الوصول؛ لأن المجنون يجامع فيولج للحال والصحيح ما ذكره الكرخي إنه لا يؤجل أصلا لما ذكرنا اهـ."
(كتاب الطلاق،باب العنين و غيره، ٤ / ١٣٣، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"قال محمد رحمه الله تعالى إن كان الجنون حادثا يؤجله سنة كالعنة ثم يخير المرأة بعد الحول إذا لم يبرأ وإن كان مطبقا فهو كالجب وبه نأخذ كذا في الحاوي القدسي."
(كتاب الطلاق، الباب الثاني عشر في العنين، ١ / ٥٢٦، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601100229
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن