مجھے اپنے باپ کی وراثت سےایک پراپرٹی ملی ہے،یعنی مذکورہ زمین میرےحصہ میں آئی ہے،میرے بھائی بہنوں کوان کاحصہ مل چکاہے،ساتھ میں ہم اس زمین پررہتے ہیں،میری اکلوتی بیٹی ہے،یہ پراپرٹی میں اپنی زوجہ اوربیٹی کے نام کرنا چاہتاہوں ،اگر میں یہ کردوں تومیرے مرنے کے بعد اس پراپرٹی میں میرے بھائی اوربہن کے بچے اس پردعوٰی کرسکتے ہیں یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ پراپرٹی چونکہ سائل کووراثت میں ملی ہے،لہذا یہ سائل کی ملکیت ہے،اورمالک اپنی زندگی میں اپنی ملکیت میں ہرطرح کے جائز تصرف کاحق رکھتاہے،لہذااگرسائل اپنی مملوکہ پراپرٹی اپنی بیوی اوربیٹی کوہبہ کرناچاہے توکرسکتاہے،البتہ اس ہبہ کے تام اورمکمل ہونےکے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ پراپرٹی سے سائل اپنا ضروری سامان لیکرباہرنکل جائے اورپھریہ جگہ اپنی بیوی اوربیٹی کو اس طرح ہبہ کر ے کہ ہر ایک کا حصہ متعین کرکے اس کو دے دے تواس طریقہ سے ہبہ تام اورمکمل ہوجائے گا،اورسائل کی وفات کے بعدیہ جگہ سائل کے ترکہ میں شامل ہوکرتقسیم نہیں ہوگی،شرعاًاس جگہ کی ملکیت سائل سے تبدیل ہوکربیوی اوربیٹی کی طرف منتقل ہوجائے گی،نیزقانونی پیچیدگی سے بچنے کے لئے سائل اس جگہ کے کاغذات بھی اپنی بیوی اوربیٹی کے نام منتقل کردے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا".
(كتاب الهبة، ج:5، ص:690، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار".
(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص:378، ط:دارالفكر)
یہ تمام تفصیل اس وقت ہے جب کے دیگر متوقع ورثاء یعنی سائل کے بھائی ،بہن اس ہبہ پربغیرکسی دباؤدلی طورپر رضامندہوں،اگرایسانہیں ہےتویہ ہبہ غیر منصفانہ اورمتوقع حقدار کوحق سے محروم کرنے کی بناء پر جائز نہیں ہوگا،اورایساکرنے پر سائل گناہگارہوگا،لہذا سائل کوچاہیئے کہ ان متوقع ورثاء کوکچھ دیکرراضی کرےیااس ہبہ کرنے پران کی دلی رضامندی لی جائے۔
شرح المجلہ میں ہے:
"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي".
(المقالة الثانية، (المادة 97) ج:1، ص:98، ط:دار الجيل)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144510102294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن