بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں کل مال کی وصیت کرنے کا حکم


سوال

 میرانام مبینہ اقبال ہے،میرے شوہر کا انتقال ہوا ہے اور میری کوئی اولاد نہیں ہے، بھائی بہن ہے،  میں تمام جائیداد اوررقم کی وصیت کرنا چاہتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میری تمام جائیداد اوررقم کو صدقۂ جاریہ میں دیا جائے  ،کیا  میں اس طرح وصیت کرسکتی ہوں  یا نہیں ؟اگر نہیں کرسکتی  تو شرعی طریقہ کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کی یہ چاہت ہو کہ وہ اپنی جائے داد میں سےایک  مخصوص حصہ   کسی کارِ خیر میں خرچ کرنے کی وصیت کر دے؛ تا کہ اُس کے انتقال کے بعد   اُس کے لیے صدقہ جاریہ بن سکے تو ایسا کرنا سائلہ کے لیے جائز ہے اور وہ وصیت کر سکتی ہے لیکن یاد رہے کہ سائلہ کو وصیت کا اختیار ایک تہائی مال میں ہو گا یعنی کُل مال کے ایک تہائی حصے کی وصیت کی جا سکتی ہے، اگر ایک تہائی سے زائد مال میں وصیت کی گئی تو وہ وصیت تمام ورثاء کی اجازت پر موقوف ہو گی، اگر انہوں نے اجازت دی تو نافذ ہو گی، ورنہ ایک تہائی نافذ ہوگی اور ایک تہائی سے زائد  کی وصیت کالعدم ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته)"

 (کتاب الوصایا، ج:6 ص: 656،  ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(کتاب الوصایا،الباب الاول فی تفسیر الوصیة،ج:6،ص:90،دارالفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"ثم تصح للأجنبي في الثلث من غير إجازة الورثة لما روينا...قال (ولا تجوز) (بما زاد على الثلث) لقول النبي - عليه الصلاة والسلام - في حديث سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - «الثلث والثلث كثير» بعد ما نفى وصيته  بالكل والنصف، ولأنه حق الورثة، وهذا لأنه انعقد سبب الزوال إليهم وهو استغناؤه عن المال فأوجب تعلق حقهم به، إلا أن الشرع لم يظهره في حق الأجانب بقدر الثلث ليتدارك مصيره على ما بيناه، وأظهره في حق الورثة لأن الظاهر أنه لا يتصدق به عليهم تحرزا عما يتفق من الإيثار على ما نبينه، وقد جاء في الحديث «الحيف في الوصية من أكبر الكبائر» وفسروه بالزيادة على الثلث وبالوصية للوارث قال (إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار) لأن الامتناع لحقهم وهم أسقطوه (ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته) لأنها قبل ثبوت الحق إذ الحق يثبت عند الموت."

(كتاب الوصايا، ج:10، ص:416، ط:بولاق مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں