بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ذہنی مریض کااپنے مال کو ہبہ کرنےکاحکم


سوال

ہماری ایک زمین فروخت ہوئی ہے،ہم تین بھائی،دوبہنیں،اور ایک والدہ ہیں، والدہ کی عمرتقریباً 65 سال ہے، والدہ  ایک pshyciatrist(ماہر نفسیات)کے زیر علاج ہیں،والدہ کو ڈپریشن کی بیماری ہے ،میرے مطابق وہ فیصلہ لینے کی حالت میں نہیں ، والدہ ایک بھائی کے ساتھ  سعودی عرب میں مقیم ہیں،اس بھائی کا امی سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے حصے کی رقم مجھے دے دیں،اور میں اُن کے لیے کوئی جگہ خرید لوں گا،لیکن یہ پیسے واپسی نہیں ہوں گے ،اگر اُن کا طبیب انہیں فیصلہ دینے کی حالت قرار  بھی دے تو کیا وہ انہیں اپنے حصے کی رقم تحفہ میں دے سکتی ہیں یا نہیں؟ اگر  میرے علاوہ  باقی بہن بھائی بھی راضی ہوں تو کیا وہ تحفہ دے سکتی ہیں؟ اگر ان کا طبیب انہیں فیصلہ کرنے کی حالت میں قرار نہ دے تو ان کی رقم امانتاً کسی شخص کے پاس جانی چاہیے،اگرکسی  شخص  پر اتفاق  نہ ہورہا ہو تو وہ رقم کہاں محفوظ ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتا ً سائل کی والدہ ذہنی طوپراس قدرمعذورہیں کہ وہ کوئی درست  فیصلہ کرنے  کی  پوزیشن میں نہیں تو اس صورت میں ان کےتصرفات شرعا نافذ نہیں ہوں گے،اوراپنے حصے کی رقم  کسی کو ہبہ (گفٹ )کردینےسے  ہبہ بھی صحیح نہ ہوگا،اوروالدہ کی حالت چوں کہ ایسی نہیں  کہ  اپنے مال کی حفاظت اور دیکھ بھال خود کرسکیں اوراولاد بھی باہمی رضامندی سے کسی ایک بیٹے کے پاس والدہ کے حصہ کی رقم امانتاً رکھنے پر  متفق نہیں توسب باہمی رضامندی  و اتفاق سے والدہ کےحصے والی رقم کو بطور امانت ایسےشخص کودیں،  جس سے یہ خطرہ نہ ہوکہ  وہ  مال کو بےجا اڑائے گا، دیانت داری اورامانت داری سےوہ  اس  میں سےوالدہ کی ضروریات  پر  خرچ کرتا رہےگا، جب والدہ کاذہنی توازن ٹھیک ہوجائےتوبچاہوا مال ان کوواپس کردیاجائے، اگر والدہ کی ذہنی حالت  کبھی درست نہ ہو پائے تو انتقال کی صورت میں اس رقم کو والدہ کے ترکہ میں شامل کرکے تمام ورثاء میں شرعی ضابطۂ میراث کی مطابق تقسیم  کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله من العته) بالتحريك من باب تعب مصباح (قوله: وهو اختلال في العقل) هذا ذكره في البحر تعريفا للجنون وقال ويدخل فيه المعتوه. وأحسن الأقوال في الفرق بينهما أن المعتوه هو القليل الفهم المختلط الكلام الفاسد التدبير، لكن لا يضرب ولا يشتم بخلاف المجنون اهـ وصرح الأصوليون بأن حكمه كالصبي إلا أن الدبوسي قال تجب عليه العبادات احتياطا. ورده صدر الإسلام بأن العته نوع جنون فيمنع وجوب أداء الحقوق جميعا كما بسطه في شرح التحرير."

(كتاب الطلاق، 243/3، ط: سعید )

درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:

"(مادة ٩٧٨) المعتوه في حكم الصغير المميز ... المسائل المتفرعة من الحكم الأول: 

أن تصرف المعتوه فيما فيه نفع محض كقبول المعتوه الهبة والصدقة والهدية معتبر كما هو مذكور في المادة (٩٦٧) ولو لم يكن ثمة إذن وإجازة من وليه. أما تصرفه الذي فيه ضرر دنيوي محض كأن يهب شيئا لآخر أو يهديه إياه أو يتصدق عليه به فباطل ولو أجازه وليه، والعقود الدائرة بين النفع والضرر تنعقد موقوفة على إجازة الولي إلا أنه يشترط في صحة إجازة المعتوه أن يكون عاقلا بحيث يعلم أن البيع سالب للملكية والشراء جالب لها وإلا فتصرفاته باطلة وإجازتها غير جائزة."

(الكتاب التاسع الحجر والإكراه والشفعة، الباب الأول في بيان المسائل المتعلقة بالحجر،700/2، ط: دار الجيل )

وفیہ ایضاً:

"لأن للإنسان أن يتصرف في ملكه الخاص كما يشاء وليس لأحد أن يمنعه عن ذلك ما لم ينشأ عن تصرفه ضرر بين لغيره".

( انظر المادة: 1192، 559/1، ط: دار الجیل )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں