ایک لڑکی زنا سے حاملہ ہو جائے اور تین ماہ گزر جائیں اور اس لڑکی کا ماموں زاد اس سے نکاح کرنا چاہے تو کیا حالتِ حمل میں لڑکی کے ماموں زاد ( یعنی زانی کے علاوہ کسی اور مرد) سےاس کا نکاح کیا جا سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں پہلے لڑکی کو اپنے اس عمل پر سچی دل سےتوبہ و استغفار کرنا چاہیے اور اس لڑکے کے ساتھ مکمل تعلق ختم کرے، ماموں زاد لڑکا کا اس لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے،البتہ جب تک وضع حمل(بچے کی پیدائش نہ ہو) اس کے ساتھ ازدواجی تعلق اور دواعی(مقدمات جماع) نہیں کرسکتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإن حرم وطؤها) ودواعيه (حتى تضع) متصل بالمسألة الأولى لئلا يسقي ماءه زرع غيره إذ الشعر ينبت منه.
(قوله: ودواعيه) قال في البحر: وحكم الدواعي على قولها كالوطء كما في النهاية. اهـ. قال ح: والذي في نفقات البحر جواز الدواعي فليحرر. اهـ.قلت: والذي في النفقات أن زوجة الصغير لو أنفق عليها أبوه ثم ولدت واعترفت أنها حبلى من الزنى لا ترد شيئا من النفقة؛ لأن الحبل من الزنى إن منع الوطء لا يمنع من دواعيه. اهـ.فيمكن الفرق بأن ما هنا فيمن كانت حبلى من الزنى ثم تزوجها، وما في النفقات في الزوجة إذا حبلت من الزنى فتأمل."
(كتاب النكاح، 49/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"لا تجب العدة على الزانية وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى كذا في شرح الطحاوي."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر، 526/1، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102004
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن