بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

زندہ کی طرف سے حج بدل کرنا


سوال

میں اپنی والدہ کے نام سے حج بدل کرنا چاہتا ہوں، اور سارا خرچہ میں اپنی ذاتی رقم سے کرنا چاہتا ہوں، میری والدہ  حیات ہیں اور ضعیف ہیں اور شوگر کی مریضہ ہیں، میں اپنافرض حج ادا کرچکا ہوں،اور حج تمتع کرنا چاہتا ہوں،رہنمائی فرمائیں۔

جواب

جس شخص پر استطاعت کی وجہ سے حج فرض ہوگیا ہو اور اس نے حج کا زمانہ پایا مگر کسی وجہ سے حج نہ کر سکا، پھر کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رہی مثلاً ایسا بیمار ہوگیا جس سے شفا کی امید نہیں یا نابینا ہوگیا یا اپاہج ہو گیا یا فالج ہوگیا یا بڑھاپے کی وجہ سے ایسا کمزور ہوگیا کہ خود سفر کرنے پر قدرت نہیں رہی، تو اس آدمی  کواپنے مرنے کے بعد اپنے ترکے سے اپنی طرف سے حج بدل کروانے کی وصیت کرنا فرض ہے، وصیت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’میرے مرنے کے بعد میری طرف سے میرے مال سے حج بدل کرادیا جائے‘‘،البتہ اگر اپنی زندگی میں  اپنی طرف سے کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر حج بدل کروائے گا تو حج اس کی موت تک موقوف ہوگا،اگر یہ آدمی حج پر جانےکے قابل ہوگیا تواس حج بدل سے فرض اس كے ذمہ سے ساقط نہيں ہوگا بلكہ اس آدمی کو بذات خود حج کرنافرض ہوگا،تاہم اگر موت تک حج پر جانے کی قدرت نہیں رہی تو زندگی میں کروایا ہوا حج بدل شمار ہو گا۔

چناں چہ صورت مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ حج فرض ہوچکا ہے اور وہ  عذر کی وجہ سے خود حج کرنے پر قدرت نہیں رکھتیں، توان كی طرف سے ان کی حيات ميں حج بدل كرنےکی  بجائے ان كو كہيں كہ  وہ  حج بدل کی وصیت کریں،پھر اگر اللہ تعالی نے آخری عمر تک تندرستی دی تو وہ خود اپنا حج کرے،بصورت دیگر ان کی وصیت کے مطابق ان کے ترکہ کے ایک تہائی سے حج بدل کرایا جائے۔

تاہم آپ  کا اپنے مال سے والدہ کی طرف سے حج بدل کرنا صحیح نہیں ہے،لیکن اگر آپ پھر بھی اپنے مال سےحج بدل کرنا چاہیں تو آپ کو چاہیے کہ مال اپنی والدہ کو ہبہ (ہدیہ) کردیں اور  پھر والدہ حج بدل کے لیے وہ مال آپ کو دے دےتو آپ کا والدہ کی طرف سے حج بدل کرنا صحیح ہوگا ،کیونکہ حج بدل کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کی طرف سے حج کیا جارہا ہے اس کے مال سے حج کیا جائے۔

باقی اگر آپ اپنے مال سے نفلی حج کرکے ان کو ثواب پہونچانا چاہتے ہیں تو یہ الگ معاملہ ہے ،اور اس کی گنجائش ہے،لیکن یہ والدہ کا فرض حج کا نعم البدل نہیں ہوگا۔

اور اگر آپ کی والدہ پر حج فرض ہی نہیں ہوا اور آپ اپنا فرض حج ادا کرچکے ہیں تب بھی آپ اپنے مال سے والدہ کی طرف سے نفلی حج  کرسکتے ہیں، احادیثِ مبارکہ میں والدین کی طرف سے حج کرنے پر اپنے حج کے ثواب کے ساتھ ساتھ اس حج  کا ثواب  دس حج  کے برابر قرار دیا گیا ہے،  اور قیامت کے دن اس کو نیک لوگوں کے ساتھ اٹھائے جانے کی بشارت دی گئی ہے، لیکن یہ حج نفل شمار ہوگا،تاہم اس کے بعد آپ کی والدہ پر اگر حج فرض ہوجاتا ہے اور محرم کے ساتھ جانے کی استطاعت پیدا ہوجاتی ہے توان  پر حج ادا کرنا فرض ہوجائے گا۔

نیز اگر آپ عین میقات یا میقات کے اندر کے رہائشی نہیں تب آپ حج تمتع  بھی کرسکتے ہیں۔

حج بدل اور حج تمتع  کی مزیدتفصیل جاننے لیے مندرجہ ذیل لنک کے ذریعے تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیں:

حج تمتع اور حج بدل کرنے کا طریقہ

فتاوی شامی میں ہے:

"باب الحج عن الغير:  الأصل أن كل من أتى بعبادة ما، له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة۔۔۔۔ والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط) لكن (بشرط دوام العجز إلى الموت) لأنه فرض العمر حتى تلزم الإعادة بزوال العذر۔۔۔۔ وبقي من الشرائط النفقة من مال الآمر كلها أو أكثرها وحج المأمور بنفسه۔۔۔۔  ولو أنفق من مال نفسه أو خلط النفقة بماله وحج وأنفق كله أو أكثره جاز وبرئ من الضمان (وشرط العجز) المذكور (للحج الفرض لا النفل) لاتساع بابه."

(کتاب الحج،باب الحج عن الغیر،ج:2،ص:594،ط:سعيد)

وفيه ايضاّ:

"(‌فإن ‌فسر ‌المال) أو المكان (فالأمر عليه) أي على ما فسره (وإلا فيحج) عنه (من بلده).

وفی الرد:قوله فالأمر عليه) أي الشأن مبني على ما فسره أي عينه، فإن فسر المال يحج عنه من حيث يبلغ، وإن فسر المكان يحج عنه منه ح. قلت: والظاهر أنه يجب عليه أن يوصي بما يبلغ من بلده إن كان في الثلث سعة، فلو أوصى بما دون ذلك أو عين مكانا دون بلده يأثم لما علمت أن الواجب عليه الحج من بلد يسكنه."

(کتاب الحج ، باب الحج عن الغیر،ج:2،ص:504،ط: سعید)

وفيه ايضاّ:

’’جاز عن حجة الإسلام إن شاء الله تعالى كما قاله في الكبير. وحاصله أن ما سبق يحكم بجوازه ألبتة، وهذا مقيد بالمشيئة. ففي مناسك السروجي: لو مات رجل بعد وجوب الحج ولم يوص به فحج رجل عنه أو حج عن أبيه أو أمه عن حجة الإسلام من غير وصية قال أبو حنيفة: يجزيه إن شاء الله، وبعد الوصية يجزيه من غير المشيئة اهـ‘‘

(كتاب الحج،باب الحج عن الغير،ج:2،ص:600،ط:سعيد)

فتاوى ہنديہ  مىں ہے :

"العبادات ثلاثة أنواع): مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة تجري في النوع الأول في حالتي الاختيار والاضطرار، ولا تجري في النوع الثاني وتجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي. ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزاً عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادراً على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيراً صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه.

(ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت، هكذا في البدائع. حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه،۔۔۔۔ وإنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل، كذا في الكنز. ففي الحج النفل تجوز النيابة حالة القدرة؛ لأن باب النفل أوسع، كذا في السراج الوهاج. (ومنها) الأمر بالحج فلا يجوز حج الغير عنه بغير أمره إلا الوارث يحج عن مورثه بغير أمره فإنه يجزيه،۔۔۔۔(ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله،‘‘

(كتاب المناسك،باب الحج عن الغير،ج:1،ص:257،ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

"والمتمتع من يأتي بأعمال العمرة في أشهر الحج أو يطوف أكثر طوافها في أشهر الحج ثم يحرم بالحج ويحج من عامه ذلك قبل أن يلم بأهله بينهما إلماماً صحيحاً، هكذا في فتاوى قاضي خان.۔۔۔۔ وليس لأهل مكة تمتع ولا قران، وإنما لهم الإفراد خاصة، كذا في الهداية. وكذلك أهل المواقيت ومن دونها إلى مكة في حكم أهل مكة، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب المناسك،باب القران و التمتع،ج:1،ص:238،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511100508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں