بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں باپ کی اشیاء میں بیٹیوں کے حصے ہونے کا حکم


سوال

میری بیٹی کو پیسوں کی ضرورت تھی، انہوں نے مجھ سے قرض مانگا، میں نے اس کو ساڑھے چار لاکھ روپے قرض دیا، اس کے ساتھ کچھ رقم ملا کر اس نے فلیٹ خریدا، اب سوال یہ ہے کہ میں نے اس کو یہ جو رقم دی ہے، کیا یہ اس کے حصے میں شمار کر سکتے ہیں یا نہیں؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ 50 لاکھ میرے پاس رقم ہے، اور اتنی مالیت کا گھر ہے، کیا اس رقم اور مکان میں میری بیٹیوں کا حصہ ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کی ملکیت میں جو اشیاء موجود ہیں، زندگی میں ان تمام اشیاء کے مالک آپ خود ہیں، ان اشیاء میں آپ کی اولاد کا فی الحال کوئی حصہ نہیں ہے، اولاد کا حق و حصہ انتقال کے بعد متعلق ہوتا ہے، لہذا آپ نے اپنی بیٹی کو جو قرضہ دیا ہے آپ اس رقم کو واپس لینے کے حق دار ہیں۔

تاہم اگر آپ اپنی جائیداد اپنی تمام اولاد میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے اور تقسیم کر سکتے ہیں، اس میں شرعاً کوئی ممانعت نہیں، اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا،جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال : «فاتقوا الله و اعدلوا بين أولادكم»".  

(مشکاۃ  المصابیح ، باب العطایا ، 1/ 261 ، ط : قدیمی)

ترجمہ:" حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا:  ”نہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، باب العطایا،  3/ 393،  ط: دارالاشاعت)

لہذا اگر آپ اپنی جائیداد اور رقم اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اس میں سے اپنے لیے جتنا چاہیں رکھ لیں تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے، بیوی اگر زندہ ہو تو اسے بھی آٹھویں حصے تک دے دیں، اس کے بعد باقی رقم اپنی ساری اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کر دیں، بلا وجہ کسی کو کم زیادہ نہ دیں، تاہم اگر اولاد میں سے کسی ایک کو اس کی محنت، غربت، فرمانبرداری یا خدمت کی بنیاد پر دوسروں  کی بنسبت کچھ زیادہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اور جس کو جو دیں اس پر اسے مالکانہ قبضہ اور تصرف بھی دے دیں۔

اور جس بیٹی کو قرضہ دیا ہوا ہے، ایسی صورت میں اس کا قرضہ اس کے حصے میں سے منہا کر لیں تو یہ بھی درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، مطلب متى ذكر الواقف شرطين متعارضين يعمل بالمتأخر، 444/4 ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں