بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

ہمارے والد صاحب حیات ہیں، ان کا ایک مکان تھا، جو انہوں نے ابھی بیچا ہے، ان کے بیٹوں کا مطالبہ ہے کہ ان کو الگ الگ گھر میں رہنا ہے، مزید ایک گھر میں اکٹھا نہیں رہنا، چناں چہ والد صاحب راضی خوشی فرما رہے ہیں کہ جس کا جتنا حصہ بنتا ہے اس کو دے دیتا ہوں، 3 بیٹے ہیں، ایک بیٹی ہے، کیا حکم ہے؟ اگر والد صاحب ہبہ کرتے ہیں تو کس طرح اور کس کا کتنا حصہ ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  و مختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، والدین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں حصہ  نہیں  ہوتا اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا ہے، تاہم اگر صاحبِ جائیداد اپنی  زندگی میں  اپنی جائیداد  خوشی  و رضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں اور اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے  وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا،جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"و عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال : «فاتقوا الله و اعدلوا بين أولادكم»".  

(مشکاۃ  المصابیح، باب العطایا،  1/ 261، ط: قدیمی)

ترجمہ:" حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا:  ”نہیں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(مظاہر حق، باب العطایا،  3/ 393،  ط: دارالاشاعت)

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے والد اپنی اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ  اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لیں تا کہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور اگر بیوی بھی حیات ہو تو ان کو کل مال کا کم ازکم آٹھواں حصہ دے دیں، اس کے بعد باقی جائیداد اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں برابر سرابر تقسیم کر دیں، بلا وجہ کسی کو کم یا زیادہ نہ دیں، تاہم اگر اولاد میں سے کسی ایک کو اس کی محنت، غربت، فرمانبرداری یا خدمت کی بنیاد پر دوسروں  کی بنسبت کچھ زیادہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اور جس کو جو دیں اس پر اسے مالکانہ قبضہ اور تصرف بھی دے دیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى."

(کتاب الوقف، مطلب متى ذكر الواقف شرطين متعارضين يعمل بالمتأخر، 444/4 ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں