بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو القعدة 1446ھ 30 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں مکان کی تقسیم لازم نہیں


سوال

میرا ایک مکان ہے، شوہر سے علیحدگی ہو چکی ہے،ایک بیٹا، تین بیٹیاں ہیں، اب میں چاہ رہی ہوں کہ اس مکان کو ایک بیٹے، تین بیٹیوں میں تقسیم کروں، جب کہ میرے پاس رہائش کے لیے اور کوئی سایہ نہیں ہے،تو اس بارے میں بتائیں کہ مکان کیسے تقسیم کروں؟مکان قابلِ تقسیم نہیں ہے، اس میں ایک ہی فیملی رہ سکتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک  ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف  کرنے سے منع کرےیا کسی قسم کے تصرف پر مجبور کرے ،نیز والدین کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائیداد میں کوئی حصہ  نہیں  ہوتا،  اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل  ہوتا ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ مکان سائلہ کی ملکیت ہے،  تو سائلہ کو چاہیے کہ  اپنے مکان ہی میں رہائش پذیر رہیں،  اسے ابھی اولاد کے درمیان تقسیم نہ کرے، تا کہ بعد میں رہائش  کی پریشانی  نہ ہو ، اور اولاد میں سے بھی کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ والدہ  کو مکان کی تقسیم کے لیے مجبور کرے۔

درر الحکام میں ہے:

"لا يمنع أحد من التصرف في ملكه الخالص،والملك المقصود هنا هو أعم من ملك الرقبة وملك المنفعة فيدخل في ذلك العقارات الموقوفة للسكنى أو للاستغلال".

(المادۃ:1197، ج:3، ص:210، ط: دار الجیل)

و فیہ ایضاً:

"‌كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(المادۃ : 1192 ، ج : 3 ، ص : 201 ، ط : دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں