کیا زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا ہو تو لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر حصہ دیا جائے گا؟
واضح رہے کہ جیسے والدین کا بچوں پر حق ہے کہ بچے ان سے حسنِ سلوک کریں اور یہ حق تمام اولاد (لڑکے لڑکیوں) پر برابری کے ساتھ ہے، اسی طرح تمام اولاد کا اپنے والد پر یہ حق ہے کہ زندگی میں ہبہ کرنے کی صورت میں وہ سب کے ساتھ برابری والا معاملہ کرے۔ اور اگر والدین اولاد (لڑکے لڑکیوں) میں برابری نہیں کرتے تو ان کی حق تلفی کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے، حدیثِ پاک میں اسے ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ البتہ کسی کی دِین داری، محتاجی یا فرماں برداری کی وجہ سے کسی کو کچھ زیادہ دے سکتے ہیں، لیکن اس صورت میں بھی کسی ایک کو محروم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
"وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا، و الوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة."
(کتاب الوقف، ۴/۴۴۴، الكتاب: رد المحتار على الدر المختار،، الناشر: دار الفكر-بيروت)
المغني لابن قدامة میں ہے:
"و قال أبو حنيفة، ومالك، والشافعي، وابن المبارك: تعطى الأنثى مثل ما يعطى الذكر؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال لبشير بن سعد: " سو بينهم ". وعلل ذلك بقوله: «أيسرك أن يستووا في برك؟ قال: نعم. قال: فسو بينهم». والبنت كالابن في استحقاق برها، وكذلك في عطيتها."
(6 / 53، مكتبة القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201622
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن