1۔ ایک شخص اپنی بیٹی سے نسبت بیٹے کے زیادہ محبت کرتا ہے، اور اپنی زندگی میں ہی میں اپنا مال بیٹے اور بیٹی میں برابر تقسیم کرتا ہے، یہ سوچ کر کہ میرے مرنے کے بعد بیٹی کو ایک حصہ ملے گا،جب کہ میں یہ نہیں چاہتا ،میں چاہتا ہوں کہ بیٹے کے برابر ملے، تو کیا یہ شخص گناہ گار ہوگا۔
2۔ ایک عورت کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اس نے مرنے سے پہلے اپنی زمین کا زیادہ حصہ اپنےبیٹے کو ہبہ کیا اور قلیل اور نبجر حصہ اپنی بیٹیوں کو ہبہ کیا،تو کیا یہ عمل درست ہے، اور اس کا کیا حکم ہے؟
زندگی میں والدین کا اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائیداد یا اموال تقسیم کرنا ہبہ(گفٹ)کہلاتا ہے، اور اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ تمام اولاد یعنی بیٹوں اور بیٹیوں میں برابری کی جائے،کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دیا جائے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کیا جائے،(یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا جائز نہیں ہے) ، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دےیا صرف بیٹوں کو دے کربیٹیوں کومحروم کیا جائے تو والدین گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر اولاد میں سےکسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے یا ضرورت مند یا محتاج ہونے کی بناء پر اس کو دیگر کے بنسبت کچھ زائد دے تو شرعاً اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
1۔صورتِ مسئولہ میں زندگی میں اپنا مال تقسیم کرنے کی صورت میں بیٹی کو بیٹے کے برابر حصہ دینا درست ہے،اور اس کے وجہ سے والد گناہ گار نہیں ہوگا۔البتہ وراثت کے اصول کے موافق کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی اولاد میں سے بیٹوں کو بیٹیوں کی بہ نسبت دگنا حصہ ملتا ہے اور یہ قرآنی حکم ہے ، اس پر اشکال یا اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
2۔مذکورہ عورت کا کسی شرعی وجہ کے بغیر محض بیٹاہونے کی وجہ سے بیٹے کو زیادہ دینا اور اچھا حصہ دینا اور بیٹیوں کو بنجر حصہ دینا مذکورہ عورت اس عمل کی وجہ گناہ گار ہو گی، اگر چہ اولاد میں سے جس جس کو جو حصہ مالکانہ طور پر دےدیا وہ اپنے حصے کا مالک شمار ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."
(کتاب الھبة، 696/5، ط: سعید)
البحر الرائق میں ہے:
"یكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز."
(كتاب الهبة، هبة الأب لطفلة، 288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101636
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن