بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں تقسیم ،مطلقہ کا شوہر کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے،حق مہر کا حکم


سوال

1)میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہوں ،چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ،بیوی کو 2016 میں طلاق دے چکا ہوں  راہنمائی فرمائیں کس کا کتنا حصہ بنے گا ،نیز بیوی کا کچھ حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟

2)میں نے اپنی بیوی کو حق مہر ابھی تک نہیں دیا ہے ،کیا وہ دینا اس کو لازم ہے؟

3)میری ساس نے میری بیوی کو ڈھائی گرام سونا دیا تھا ،جو میں نے فروخت کر دیا تھا ،میری بیوی نے مجھے بطور قرض کے دیے تھے ،کیا وہ دینا بھی مجھ پر لازم ہے ؟

جواب

1)واضح رہے کہ شریعت  نے ہر انسان کو اپنے مال و جائیداد میں جائز تصرف کا حق دیا ہے ،لہذا  اگر کوئی  شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو  کر سکتا ہے ،اور یہ شرعا ہبہ (گفٹ) ہے ،البتہ زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد کو تقسیم کرنے کی صورت میں شرعًا بیٹا بیٹی میں برابری ضروری ہے یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیا جائے اتنا ہی بیٹی کو  دیا جائے ۔نیز تقسیم کے بعد ہر ایک کا حصہ عملًا  ہر ایک کے قبضہ و تصرف میں دینا بھی ضروری ہے ،محض زبانی یا تحریری ہبہ کافی نہیں ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کو تقسیم کرنا چاہتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ  سائل اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے تاکہ کل کو محتاجی نہ ہو  ،اس کے بعد بقیہ رقم  تمام اولاد میں برابر سرابر تقسیم کردے ، کمی بیشی نہ کرے ، البتہ اگر اولاد میں کوئی خدمت گزار یا تنگدست یا دیندار ہو تو اسے دیگر کے مقابلے میں کچھ زیادہ دینا بھی جائز ہے۔مطلقہ کا  چونکہ سائل کی جائیداد میں کوئی حق و حصہ نہیں ہے،اس لیے سائل پر مطلقہ کو دینا لازم نہیں ہے ۔ 

2)حق مہر  کی ادائیگی سائل پر لازم ہے ۔

3)اتنی ہی مقدار سونا یا اس کی موجودہ قیمت سائل کے ذمہ لازم ہے۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية: أنه قال: «أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى قال: «فلا إذاً» . وفي رواية:،،،إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟» قال: لا قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» . قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: أنه قال: «لا أشهد على جور."

(  باب العطایا،ج:1،ص:267،ط:رحمانیہ)

ترجمہ:"حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے مجھے جناب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور کہنے لگے میں نے اس بیٹے کو ایک غلام بخشاہے توآپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کو اسی بیٹے جیسا غلام دیا ہے؟انہوں نے کہا نہیں  تو اس پر آپ ﷺ نے فرمایا  کہ اس غلام کو واپس لے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے  تمہارے ساتھ نیکی میں برابر ہوں( یعنی تیرے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے ہو ں اور تیری فرمانبرداری اور تعظیم کرنے والے ہوں) تو انہوں نے کہا جی ہاں :پس آپ ﷺ نے فرمایا کہ مناسب نہیں  کہ تم اپنے  اس اکیلے لڑکے کو غلام دو۔اورایک روایت میں ہے(کہ میرے والد)کہنے لگے کہ میں نے اس بیٹے کو جو عمرہ بن رواحہ سے ہے ایک چیز دی ہے تو عمرہ کہنے لگی کہ اس پر آپﷺ کو گواہ بناؤں  ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کیاتم نے اپنے تمام بیٹوں کو اس طرح چیز دی ہے ؟اس نے کہا نہیں تو اس پر آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے والد واپس آئے اور دی ہوئی چیز واپس پھیرلی ، اور ایک  روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔یہ بخاری ومسلم  کی روایت ہے ۔"

 

(مظاہر حق،ص:,16215،ج:3،ط:مکتبۃالعلم)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع۔"

(کتاب النکاح الباب السابع ج:1 /ص:303  /ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"والفرق أن الإبراء يسقط به الدين أصلا كما قدمه، وبالاستيفاء لا يسقط، لما تقرر أن ‌الديون ‌تقضى بأمثالها لا أنفسها لأن الدين وصف في الذمة لا يمكن أداؤه۔"

(کتاب الرہن فصل فی مسائل متفرقۃ6/ 525 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں