ایک شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنے مال میں کچھ حصہ یا کل مال تقسیم کرنا چاہتا ہے، تو شرعا ان کے درمیان اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ اولاد میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، جب کہ بیوی بھی زندہ ہے، اور رقم ایک کروڑ روپے ہے۔
زندگی میں تقسیم کی جانے والی جائیداد یا رقم ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے،اور ہبہ (گفٹ) کا حکم یہ ہے کہ اس میں تمام اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) میں برابری کی جائے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے، بلا وجہ کسی کے حق میں کمی بیشی کرنا یا کسی کو محروم کرنا شرعاً جائز نہیں، البتہ اولاد میں سے کسی کو فرماں برداری، دین داری،یا محتاجگی کی وجہ سے بنسبت اوروں کے کچھ زائد حصہ بھی دیا جاسکتا ہے۔
مذکورہ شخص کے لیے زندگی میں رقم کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اولاً اپنے لیے جس قدر چاہے رکھ لے جس سے بقیہ زندگی بغیر محتاجگی کے گزار سکے ، اور کل رقم کا کم از کم آٹھواں حصہ بیوی کو بھی دے دے، پھر بقیہ رقم اپنی اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) میں برابری کے ساتھ تقسیم کر دے، یعنی کل پانچ بچے ہیں تو بقیہ رقم کے کل پانچ حصے کرکے سب کو ایک ایک حصہ دے، کسی شرعی وجہ کے بغیر اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) میں کمی بیشی کرنا جائز نہیں، لیکن اگر کسی کی خدمت، اطاعت، دین داری یا محتاجگی کی وجہ سے اسے اورو ں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
نیز ہبہ کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تقسیم کے بعد رقم ان کے حوالے بھی کر دی جائے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: أكل ولدك نحلت مثله؟ قال: لا قال: فأرجعه و في رواية ...... قال: فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم."
(مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
”(ترجمہ) :حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“
(مظاہر حق جدید،باب العطایا 3/ 193 ط: دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: اتقوا الله واعدلوا في أولادكم، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل."
(رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)
وفیه ایضا:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها وإن شاغلا لا...."
(کتاب الھبة، 5/ 690، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601102484
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن