بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنے کا حکم


سوال

میرے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں اور میں زندگی میں اپنی جائیداد ان کے درمیان تقسم کرنا چاہتا ہوں، اس کا شرعی حکم وطریقہ کیا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل پر زندگی میں اولاد کے درمیان اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ضروری نہیں، سائل اپنی تمام جائیداد کا تنہا مالک ہے اور تمام جائز تصرفات کا حق رکھتا ہے۔ اولاد میں سے کسی کو تقسیم کے مطالبے کا شرعاً حق نہیں، پس اگر سائل کسی جبر ومطالبہ کے بغیر برضا ورغبت اپنی اولاد میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ سب سے پہلے جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے، پھر بقیہ جائیداد کے 9 حصے کر کے اپنی تمام اولاد (پانچ بیٹوں اور چار بیٹیوں) کے درمیان برابر تقسیم کردے۔ اولاد میں سے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دے، کیوں کہ زندگی میں والد جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ، اس کی شرعی حیثیت تحفہ کی ہوتی ہے جس میں برابری کا حکم احادیث میں وارد ہوا ہے، البتہ اولاد میں سے کسی ایک کو دین داری، خدمت گزاری یا کسی اور معقول شرعی وجہ سے دوسری اولاد کی بنسبت زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ نیز اولاد میں سے جس کو جو دینا مقصود ہو، اس حصہ کو الگ کر کے اس کے قبضہ میں مالکانہ تصرف کے اختیار کے ساتھ دینا ضروری ہوگا، جائیداد اولاد کے محض نام کردینا اور ہر ایک کو اس کے حصہ پر قبضہ نہ دینا کافی نہ ہوگا۔

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"وعن النعمان بن بشير رضي الله عنهما أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» وفي رواية قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم.»"

(كتاب البيوع، باب، ج:2، ص:909، ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔" (مظاہر حق)

مرقاة المفاتيح ميں ہے:

"قال النووي: " فيه استحباب التسوية بين الأولاد في الهبة فلا يفضل بعضهم على بعض سواء كانوا ذكورا أو إناثا، قال بعض أصحابنا: ينبغي أن يكون للذكر مثل حظ الأنثيين، والصحيح الأول لظاهر الحديث فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي، ومالك، وأبي حنيفة - رحمهم الله تعالى - أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة."

(کتاب البیوع، باب العطایا، ج:5، ص:2009، ط: دار الفکر)

مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"وفي السراجية وينبغي أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل عند أبي يوسف أن يعطيهم على السواء هو المختار كما في الخلاص ... وإن كان بعض أولاده مشتغلا بالعلم دون الكسب لا بأس بأن يفضله على غيره، وعلى جواب المتأخرين لا بأس بأن يعطي من أولاده من كان عالما متأدبا ولا يعطي منهم من كان فاسقا فاجرا."

(کتاب الهبة، أركان الهبة، ج:2، ص:358، ط: دار إحياء التراث العربي)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض ... وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك."

(كتاب الهبة، ج:12، ص: 48، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں