بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

محض نام سے ہبہ تام نہیں ہوتا، بیوہ دو بیٹوں اور چار بیٹوں میں وراثت کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال 2012 میں ہوا ۔ان کے ترکہ میں تین مکانات ہیں ،ایک مکان اپنی زندگی میں میری والدہ کے نام کرواکر تمام اختیارات والدہ کو دے دیئے تھے ،اورایک مکان ہمارے بڑے بھائی کے نام کروایا تھا ،لیکن قبضہ وغیرہ کچھ نہیں دیا تھا ،سارے گھر والے اسی میں رہتے تھے ،تیسرا مکان جوچھ منزلہ ہے والدصاحب ہی کے نام پر ہے ،اس کے بارے میں والد صاحب نے کہا تھا جب تک ہماری والدہ زندہ ہیں وہ اس کے کرایہ سے گھر کا خرچہ چلائے گی ،والد صاحب کے ورثاء میں ایک بیوہ ،دو بیٹے ،اورچاربیٹیاں ہیں ، بڑے بھائی کے نام جو گھر ہے وہ اس پر قابض ہے اور تقسیم نہیں کرتا۔اب سوال یہ ہے کہ

1. والد صاحب کے نام جو مکان ہے ،اس میں بڑے بھائی کا حصہ ہوگا یانہیں ؟،یا اس کو میراث کا وہی حصہ کافی ہوگا جس پر وہ قابض ہے اور ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں کرتا؟

2.والدہ کے نام جو مکان ہے ،اور تیسرے مکان کے گراؤنڈ فلور اور پہلا فلور والدہ مجھے ہدیہ کرنا چاہتی ہے تاکہ ہم دونوں بھائیوں میں جھگڑا نہ ہو اور دونوں کوبرابر حصہ ملے اور چار فلور چار بیٹیوں کو ہدیہ کرے ،کیا وہ ایسا کرسکتی ہے ؟

جواب

1 .صورت ِ مسئولہ میں والد مرحوم نے جو مکان محض کاغذات  بڑے بیٹے کے نام کیا تھا ،مکمل قبضہ وتصرف نہیں دیا تھا ،بلکہ سارے گھر والے اسی مکان میں رہتے تھے تو اس سے ہبہ مکمل نہیں ہوا ،یہ مکان والد مرحوم کا ترکہ کہلائے گا ،اور مرحوم کے تمام ورثاء :بیوہ،دو بیٹے اورچار بیٹیوں میں ان کے شرعی حصوں کے موافق تقسیم ہوگا۔

بڑے بیٹے کا والد کے مکان پرقابض رہنا جائز نہیں ہے،البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں ،اور باہمی مصالحت سے یہ صورت اختیار کرلیں کہ بڑے بھائی کووہ مکان دےدیں اور وہ والد مرحوم کے بقیہ ترکہ سے دستبردار ہوجائے،اور بقیہ ترکہ دیگرورثاءآپس میں تقسیم کرلیں توایساکرنا جائز ہوگا۔

2.والدہ کوجو مکان ہبہ کیاگیاتھااورمکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دیا گیاتھا وہ مکان والدہ کی ملکیت شمار ہوگا ،والدہ اگر اپنی زندگی میں اس مکان کوتقسیم کرناچاہتی ہے تو انہیں چاہیےکہ اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کریں ،بلاشرعی وجہ کے کسی ایک کو دینا اور بقیہ کو محروم کرنے سے والدہ گناہ گار ہوں گی ۔

والد مرحوم کے ترکہ کا جو تیسرا مکان ہے جو چھ منزلوں پرمشتمل ہے ،یہ بھی تمام ورثاء :بیوہ ،بیٹوں ،اور بیٹیوں میں ان کے شرعی حصوں کے موافق  تقسیم ہوگا ،والدہ اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کا حق نہیں رکھتیں ،اور والد مرحوم کی وراثت کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ میت کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد ،اگر میت پر قرضہ ہو اس کو ادا کرنے کے بعد ،اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ترکہ کے ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد ما بقیہ منقولہ اور غیر منقولہ  ترکہ کو 64حصوں میں تقسیم کرکے 8حصے بیوہ کو،14حصے ہر ایک بیٹے کو اور7حصےہرایک بیٹی کو ملے گا۔

صورت ِتقسیم یہ ہے :

میت:64/8

بیوہبیٹا بیٹابیٹیبیٹی بیٹیبیٹی
17
814147777

یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5فیصد بیوہ کو،21.87فیصد ہر ایک بیٹے کو ،اور 10.93فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

(‌‌کتاب البیوع، ‌‌باب الغصب والعارية، الفصل الأول، ج: 2، ص؛887، ط: المکتب الإسلامي)

 ترجمہ:”حضرت سعید ابن زیدسےرضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:جوشخص کسی کی ایک بالشت زمین ظلماًدبائےگاقیامت کےدن وہ زمین سات زمینوں  تک اس کی گردن میں بطورِ طوق ڈال دی جائےگی۔“(مظاہرحق)

فتاوى ہندیہ میں ہے:

"لا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك، والإذن تارة يثبت نصا وصريحا وتارة يثبت دلالة فالصريح أن يقول: اقبضه إذا كان الموهوب حاضرا في المجلس ويقول اذهب واقبضه إذا كان غائبا عن المجلس ثم إذا كان الموهوب حاضرا، وقال له الواهب: اقبضه فقبضه في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه وملكه قياسا واستحسانا، ولو نهاه عن القبض بعد الهبة لا يصح قبضه لا في المجلس ولا بعد الافتراق عن المجلس، وإن لم يأذن له بالقبض صريحا ولم ينهه عنه إن قبضه في المجلس صح قبضه استحسانا لا قياسا، وإن قبضه بعد الافتراق عن المجلس لا يصح قبضه قياسا واستحسانا، ولو كان الموهوب غائبا فذهب وقبض: إن كان القبض بإذن الواهب جاز استحسانا لا قياسا، وإن كان بغير إذنه لا يجوز قياسا واستحسانا، هكذا في الذخيرة."

(کتاب الہبة،الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،ج:4  ،ص:377 ،ط:دارالفکربیروت)

درمختار میں ہے :

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب،ج:6 ،ص:200 ،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں