میری ذاتی ملکیت میں ایک گھر ، ایک عدد فلیٹ اور ایک عدد 80 گز کا پلاٹ ہے، میرے تین بیٹے ، ایک بیٹی اور شوہر ہے، میں اپنی زندگی میں مذکورہ جائیداد ان لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہوں تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائے داد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، ہر جائز تصرف وہ اس میں کرسکتا ہے،اور اس کی زندگی میں اولاد وغیرہ کا اس کی جائے داد میں کوئی حق و حصہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہوتاہے، تاہم اگر مالک خود اپنی زندگی میں اپنی جائے داد خوشی ورضا سے اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، نیز اپنی زندگی میں جو جائے داد تقسیم کی جائے وہ میراث نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ہے، البتہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے، یعنی مثلاً کسی کی شرافت ودِین داری یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، بشرط یہ کہ دیگر اولاد کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو ، اسی طرح کسی کو بالکلیہ محروم کرنا بھی جائز نہیں۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ اگر اپنی جائیداد اپنی خوشی ورضا سے اپنے شوہر اور اولاد میں تقسیم کرنا چاہتی ہے، تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائے داد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بہتر یہ ہے کہ اپنے شوہر کو چوتھائی حصہ کے بقدر دے دے اور باقی مال اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے۔البتہ اگر سائلہ اپنے کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ دِین دار یا خدمت گزار یا ضرورت مند ہونے کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ زائد دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔
نیز اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جو جائیداد تقسیم کرے، تو ہر ایک کو اس کا حصہ الگ الگ کرکے قبضہ وتصرف کے ساتھ مالک بناکر دے دے، ورنہ محض نام کرنے سےشرعاً ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔
شرح المجلہ میں ہے:
"کل یتصرف في ملکه کیف شاء".
(الفصل الاول فی بیان بعض قواعد فی احکام الاملاک، 4 /132، مادہ:1192، ط: رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى."
(کتاب الھبة، 5/ 696، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه - صلى الله عليه وسلم - قال سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير اتقوا الله واعدلوا في أولادكم فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف، وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل، وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور، والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه، فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص هذا خلاصة ما في هذه الرسالة، وذكر فيها أنه أفتى بذلك شيخ الإسلام محمد الحجازي الشافعي والشيخ سالم السنهوري المالكي والقاضي تاج الدين الحنفي وغيرهم اهـ."
(کتاب الوقف، 4/ 444، ط: سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."
(كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، 4 /378، ط: رشیدیة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607102005
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن